تذکرۂ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

                میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے صِرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عُمر میں تمام مُرَوَّجہ عُلُوم کی تکمیل اپنے والدِماجد رئیسُ الْمُتَکلِّمِیْن مولانا نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان سے کرکے سَنَدِ فراغت حاصِل کرلی۔اِسی دن آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے ایک سُوال کے جواب میں پہلا فتوٰی تحریر فرمایا تھا۔ فتوٰی صحیح پا کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے والدِ ماجد نے مَسندِاِفتا آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے سپرد کردی اور آخِروَقت تک فتاوٰی تحریر فرماتے رہے ۔ (ایضاً ص۲۷۹)  اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔         اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اعلٰی حضرت کی رِیاضی دانی

            اللہ تعالٰی نے اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو بے اندازہ عُلُوم جَلیلہ سے نوازا تھا ۔آپ  رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے کم وبیش پچاس عُلُوم میں قلم اُٹھایا اور قابلِ قَدر کُتُب تصنیف فرمائیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو ہر فن میں کافی دسترس حاصل تھی۔ علمِ تَوقِیت  (عِلمِ تَو۔ قِی ۔ ت)  میں اِس قَدَر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی مِلالیتے۔ وَقت بِالکل صحیح ہو تا اور کبھی ایک مِنَٹ کا بھی فرق نہ ہوا۔ علمِ رِیاضی میں آپ یگانۂ رُوزگار تھے۔ چُنانچہ علیگڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضِیاء الدِّین جو کہ رِیاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تَمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ارشاد ہوا:  فرمائیے!  اُنہوں نے کہا:  وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی آسانی سے عَرض کروں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فرمایا:  کچھ تو فرمایئے۔ وائس چانسلر صاحِب نے سُوال پیش کیا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اُسی وَقت اس کا تَشَفّی بخش جواب دے دیا۔ اُنہوں نے اِنتہائی حیرت سے کہا کہ میں اِس مسئلے کے لیے جرمن جانا چاہتا تھا اِتِّفاقاً ہمارے دینیات کے پروفیسر مولانا سیِّد سُلَیمان اشرف صاحِب نے میری راہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضِر ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسی مسئلے کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحِب بصد فرحت و مَسرّت واپَس تشریف لے گئے اور آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی شخصیَّت سے اِس قَدَر مُتَأَثِّر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صَوم وصَلوٰۃ کے پابند ہوگئے۔(ایضاً ص۲۲۳، ۲۲۹)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔                اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

عِلاوہ ازیں میرے آقااعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ علمِ تکسِیر، علمِ ہیئت ، علمِ جَفر وغیرہ میں بھی کافی مَہارت رکھتے تھے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حیرت انگیز قُوّتِ حافِظہ

     حضرتِ ابو حامِد سیّد محمد محدِّث کچھوچھوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ جب دارُالْاِفتا میں کام کرنے کے سلسلے میں میرا بریلی شریف میں قیام تھا تو رات دن ایسے واقعات سامنے آتے تھے کہ اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی سے لوگ حیران ہو جاتے۔ ان حاضر جوابیوں میں حیرت میں ڈال دینے والے واقِعات وہ علمی حاضِر جوابی تھی جس کی مثال سُنی بھی نہیں گئی۔ مَثَلاً اِستِفتا (سُوال)  آیا، دارُالْاِفتا میں کام کرنے والوں نے پڑھااور ایسا معلوم ہوا کہ نئی قسم کا حادِثہ دریافت کیا گیا (یعنی نئے قسم کا مُعامَلہ پیش آیا ہے)  اور جواب  جُزئِیَّہ  (جُز۔ئی۔یَہ)  کی شکل میں نہ مل سکے گا فُقَہا ئے کرام کے اُصولِ عامَّہ سے اِستِنباط کرنا پڑے گا۔ (یعنی فُقَہا ئے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السَّلام کے بتائے ہوئے اُصولوں سے مسئلہ نکالنا پڑے گا)  اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، عَرض کیا:  عجب نئے نئے قسم کے سُوالات آرہے ہیں !  اب ہم لوگ کیا طریقہ اختِیار کریں ؟  فرمایا:  یہ تو بڑاپُراناسُوال ہے۔ ابنِ ہُمام نے’’فَتْحُ القدیر‘‘ کے فُلاں صَفحے میں ، ابنِ عابِدین نے ’’رَدُّ الْمُحتار‘‘کی فُلاں جلد اورفُلاں صَفْحَہ پر (لکھا ہے) ، ’’فتاوٰی ہندیہ‘‘ میں ،  ’’خَیریہ‘‘ میں یہ یہ عبارت صاف صاف موجود ہے اب جوکتابوں کو کھولاتو صَفْحَہ ، سَطر اور بتائی گئی عبارت میں ایک نُقطے کا فَرق نہیں۔ اس خداداد فضل وکمال نے عُلَماکو ہمیشہ حیرت میں رکھا ۔  (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج ۱  ص ۲۱۰) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔                   اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کس طرح اِتنے علم کے دریا بہا دیئے

عُلَمائے حق کی عقل تو حیراں ہے آج بھی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صرف ایک ماہ میں حِفظ قرآن

            جنابِ سیِّد ایّوب علی صاحِب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حَضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کر تے ہیں ، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سیِّد ایّوب علی صاحبِ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے

Index