تذکرۂ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اِسی روز سے دَور شُروع کر دیا جس کا وَقت غالِباً عشا کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روز تیسواں پارہ یاد فرمالیا۔

            ایک موقع پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بِالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اس لیے کہ ان بندگانِ خُدا کا  ( جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں )  کہنا غَلَط ثَابِت نہ ہو۔  (ایضاً ص۲۰۸ )  اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔                 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

            میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ عشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کاسرتاپا نُمُونہ تھے، آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش شریف‘‘ اِس اَمر کا شاہد ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی نَوکِ قلم بلکہ گہرائیِ قَلب سے نِکلا ہوا ہر مِصرَعَہ مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی بے پایاں عقیدت و مَحَبَّت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے کبھی کسی دُنیوی تاجدار کی خوشامد کے لیے قصیدہ نہیں لکھا، اِس لیے کہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے حُضورِ تاجدارِ رِ سالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت و غُلامی کو دل و جان سے قبول کرلیا تھا۔اور اس میں مرتبۂ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اس کا اظہار آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے ایک شِعر میں اِس طرح فرمایا :    ؎

اِنہیں جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

لِلّٰہِ الْحَمْد میں دُنیا سے مسلمان گیا

حُکَّام کی خُوشامد سے اِجتِناب

            ایک مرتبہ رِیاست نان پارہ  ( ضِلع بہرائچ یوپی ہند)  کے نواب کی مَدح (یعنی تعریف)  میں شُعَرا نے قصائد لکھے ۔ کچھ لوگوں نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ سے بھی گزارِش کی کہ حضرت آپ بھی نواب صاحِب کی مَدح (تعریف)  میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اس کے جواب میں ایک نعت شریف لکھی جس کا مَطلَع  ([1])  یہ ہے:    ؎ 

وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گُمانِ نَقص جہاں نہیں

یِہی پھول خار سے دُور ہے یِہی شَمع ہے کہ دُھواں نہیں

مشکل الفاظ کے مَعانی : کمال= پورا ہونا ۔نَقص=خامی۔خار=کانٹا شَرحِ کلامِ رضا: ؔمیرے آقا محبوبِ ربِّ ذوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حسن و جمال درجۂ کمال تک پہنچتا ہے یعنی ہر طرح سے کامل و مکمَّل ہے اس میں کوئی خامی ہونا تو دُور کی بات ہے ، خامی کا تصوُّر تک نہیں ہو سکتا، ہر پھول کی شاخ میں کانٹے ہوتے ہیں مگر گلشنِ آمِنہ کاایک یِہی مہکتا پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایسا ہے جو کانٹوں سے پاک ہے، ہرشَمع میں یہ عیب ہوتا ہے کہ وہ دُھواں چھوڑتی ہے مگر آپ بزمِ رسالت کی ایسی روشن شَمع ہیں کہ دھوئیں یعنی ہر طرح کے عیب سے پاک ہیںاور مَقطَع ([2])  میں ’’نا ن پارہ‘‘ کی بندِش کتنے لطیف اشارے میں ادا کرتے ہیں :    ؎

کروں مَدحِ اَہلِ دُوَل رضا ؔ پڑے اِس بَلا میں مِری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین ’’پارئہ ناں ‘‘نہیں

مشکل الفاظ کے مَعانی : مَدح=تعریف۔دُوَل=دولت کی جَمع۔پارۂ ناں =روٹی کا ٹکڑا شرحِ کلامِ رضا:  ؔمیں اَہلِ دولت و ثَروَت کی مَدح سَرائی یعنی تعریف و توصیف کیوں کروں !  میں تو اپنے آقائے کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَر کا فقیر ہوں۔ میرا دین’’پارئہ نان‘‘ نہیں۔ ’’نان‘‘ کا معنیٰ روٹی اور ’’پارہ‘‘ یعنی ٹکڑا ۔مطلب یہ کہ میرا دین ’’روٹی کا ٹکرا‘‘ نہیں ہے کہ جس کے لیے مالداروں کی خوشامدیں کرتا پھروں۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 



[1]      غزل یا قصیدہ کے شروع کا شعر جس کے دونوں مصرعوں میں قافیے ہوں وہ مَطْلَع کہلاتا ہے۔ 

[2]      کلام کا آخری شعر جس میں شاعر کا تخلص ہو وہ مَقْطَع کہلاتا ہے۔

Index