کراماتِ عثمان غنی مع دیگر حکایات

یعنی میری شہادت لکھ دی گئی ہے اور نبیِّ غیب دان ، رسولِ ذِیشان، مَحْبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے اِس کی بشارت دے دی ہے ۔ حضرت ِسیِّدُنا عُثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اپنے غلاموں سے فرمایا : ’’ اگر تم نے جنگ کی پھر بھی میری شہادت ہوکر رہے گی ۔ ‘‘             (تحفۂ ا ثنا عشریہ ص۳۲۷)

جو دل کو ضِیاء دے جو مقدّر کو جِلا دے

وہ جلوۂ دیدار ہے عثمانِ غنی کا

حسَنَینِ کریْمَیْن نے پَہرا دیا

         مولائے کائنات، مولا مشکِلکُشا، شیرِ خدا ، علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حضرتِ سیِّدناعثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے بے حدمَحبَّت کرتے تھے ۔  حالات کی نازُکی دیکھ کر آپ نے اپنے دونوں شہزادوں حَسَنَینِ کریْمَیْن یعنی امامِ حسن و حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما  سے فرمایا : ’’ تم دونوں اپنی اپنی تلواریں لے کر حضرت ِعثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے دروازے پر جاؤ اور پہرا دو ۔ قَضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ جب غالِب آئی حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی شہادت ہوئی تو حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو سخت صدمہ ہوا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕپڑھا  ۔

خدا بھی اور نبی بھی خو د علی بھی اُس سے ہیں ناراض

عَدُو اُن کا اُٹھائے گا قِیامت میں پریشانی(وسائل بخشش ص۴۹۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

گستاخ بندر بن گیا

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَانسے بُغض و عداوت رکھنا دارَین (یعنی دُنیا و آخِرت) میں نقصان و خُسران کا سبب ہے چُنانچِہ حضرت عارِف باللّٰہ سیِّدُ نانو رُالدّین عبدُ الرَّحْمٰن جا می قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی اپنی مشہو ر کتاب ’’شَوا ہِدُ النُّبُوَّ ۃ‘‘ میں نَقْل کرتے ہیں 3 اَفراد یَمَن کے سفر پر نکلے ان میں ایک کُو فی (یعنی کوفے کا رہنے والا ) تھاجو شَیخَینِ کر یمین ( حضرتِ سیِّدنا ابو بکر صدّیق اورحضر تِ سیِّدُنا  عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما  ) کا گستاخ تھا، اُسے سمجھایا گیا لیکن وہ باز نہ آیا ۔  جب یہ تینوں یمن کے قریب پہنچے تو ایک جگہ قِیام کیا اور سوگئے ۔ جب کُوچ کا وقت آیا تو اُن میں سے اٹھ کر دو نے وضو کیا اور پھر اُس گستاخ کُوفی کو جگایا ۔ وہ اُٹھ کر کہنے لگا : افسوس! میں تم سے اِس منزل میں پیچھے رہ گیاہوں ، تم نے مجھے عَین اُس وقت جگایا جب شَہَنْشاہِ عجم و عرب، محبوبِ ربّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے سرہانے تشریف فرما ہو کر ارشاد فرما رہے تھے  : ’’اے فاسق! اللہ عَزَّ وَجَلَّ فاسِق کو ذلیل و خوار کرتاہے ، اِسی سفر میں تیری شکل بدل جائے گی ۔ ‘‘جب وہ گستاخ  وُضو کے لیے بیٹھا تو اُس کے پاؤں کی اُنگلیاں مَسْخ ہونا (یعنی بگڑنا)شروع ہوگئیں ، پھر اُس کے دونوں پاؤں بندر کے پاؤں کے مُشابہ ہو گئے ، پھرگُھٹنوں تک بندرکی طرح ہو گیا، یہاں تک کہ اس کا سارا بدن بندرکی طرح بن گیا ۔ اُس کے رُفَقاء نے اُس بندرنُما گستاخ کو پکڑ کر اُونٹ کے پالان کے ساتھ باندھ دیا اور اپنی منزِل کی طرف چل دیئے ۔ غُروبِ آفتاب کے وقت وہ ایک ایسے جنگل میں پہنچے جہاں کچھ بندر جَمْعْ تھے ، جب اُس نے اُن کو دیکھا تو مُضطرِب(یعنی بے تاب) ہو کر رسّی چُھڑائی اور اُن میں جاملا ۔ پھر سبھی بندر اِن دونوں کے قریب آئے تو یہ خائف(یعنی خوفزدہ) ہو گئے مگرانہوں نے ان کوکوئی اذیّت نہ دی اور وہ بندر نما گستاخ ان دونوں کے پاس بیٹھ گیا اور انہیں دیکھ دیکھ کر آنسو بہاتا رہا ۔ ایک گھنٹے کے بعد جب بندر واپَس گئے تو وہ بھی اُن کے ساتھ ہی چلا گیا ۔  (شَوا ہِدُ النُّبُوَّ ۃص۲۰۳ )

ہم اُن کی یاد میں دھومیں مچائیں گے قیامت تک

پڑے ہوجائیں جل کر خاک سب اعدائے عثمانی(وسائل بخشش ص۴۹۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے دیکھا!شیخینِ کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا گستاخ بندر بن گیا ۔ کسی کسی کو اس طرح دُنیا میں بھی سزادے کر لوگوں کے لیے عبرت کا نُمُونہ بنا دیاجاتا ہے تاکہ لو گ ڈریں ، گناہوں اور گستاخیوں سے با ز آئیں  ۔ اللہ تعالٰی ہم کو صَحا بۂ کرام ا ور اہلبیتِ عِظام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان سے مَحَبّت کرنے والوں میں رکھے  ۔

ہم کو اصحابِ نبی سے پیار ہے                اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنا بیڑا پار ہے

ہم کو اہلبیت سے بھی پیار ہے                   اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنا بیڑا پار ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 ایمان پر خاتِمہ

          حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہسرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک فتنے کا ذِکر کیا اور حضرت ِعثمان کے لیے فرمایا کہ یہ اُس میں ظلماً شہید کر دیئے جائیں گے ۔     ( تِرمِذی ج۵ص۳۹۵ حدیث۳۷۲۸)

     مُفَسّرِشہیر، حکیمُ الْاُمَّت، حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیث ِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : اس ارشاد میں چند غیبی خبریں ہیں حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ) کے انتِقال کی تاریخ ، آپ کی وفات کی جگہ، آپ کی وفات کی نوعیت کہ شہید ہو کر ہوگی آپ کا ایمان پر خاتمہ کیونکہ شہادت کے لیے اسلام پر موت ضروری ہے ، یہ ہے حضورِ انور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا علمِ غیب ۔  ( مُلَخَّص ازمراٰۃ ج ۸ ص۴۰۳)   

 

Index