کراماتِ عثمان غنی مع دیگر حکایات

راکھ ہوجاؤں ، اس سے پہلے کہ مجھے کسی طرف جانے کا حکم دیا جائے ۔ ‘‘(اَلزُّہْد  لِلامام اَحمد ص۱۵۵حدیث۶۸۶)

            قَطْعی جنّتی ہونے کے باوُجُود آپ نے خوفِ خدا سے مغلوب ہو کر یہ فرمایا ہے ۔  اِس ارشاد میں اللہ تعالیٰکی خفیہ تدبیر سے خوف کا اظہار ہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ مجھے جنّت کے

 بجائے جہنَّم میں جانے کا حکم دے دیاجائے ! لہٰذا عذابِ دوزخ کے ڈر کے سبب راکھ ہو جانے کی پسند کا اظہار فرمایا ۔

کاش! ایسا ہوجاتا خاک بن کے طَیبہ کی

مصطَفٰے کے قدموں سے میں لپٹ گیا ہوتا(وسائلِ بخشش ص۲۵۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

                آخِرت کی فِکْر دل میں نور پیدا کرتی ہے

            حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : دنیا کی فکر دل میں اندھیرا جب کہ آخِرت کی فکرنور پیدا کرتی ہے ۔  (اَلمُنَبّھات ص۴)

عُثمانِ غنی پر کرم

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مکّے مدینے کے سلطان، رَحْمتِ عالمیان ، مَحْبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جامِعُ القرآن، حضرت سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر بے حد و بے انتہا مہربان تھے ، اس ضِمْن میں ایک واقِعہ مُلاحَظہ فرمائیے چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جن دِنوں باغیو ں نے حضرتِ سیِّدُنا عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے مکا نِ رَفیعُ الشّان کامُحاصَرہ کیاہوا تھا، اُن کے گھر میں پا نی کی ایک بوند تک نہیں جانے دی جا رہی تھی اور حضرتِ سیِّدُناعثما نِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پیا س کی شِدّت سے تڑپتے رہتے تھے ۔  میں ملاقات کے لیے حا ضِر ہو ا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اُس دن روزہ دار تھے ۔  مجھ کو دیکھ کر فر مایا :  اے عبد اللّٰہ بن سلام(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  )! میں نے آج رات تاجدارِ دو جہان، رَحْمت عالمیان، مدینے کے سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اِس روشن دان میں دیکھا، سلطانِ زمانہ، رسولِ یگانہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِنتِہائی مُشفِقانہ لہجے میں اِرشاد فر مایا : ’’ اے عثمان  (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ) !ان لوگوں نے پا نی بند کر کے تمہیں پیاس سے بے قرار کر دیا ہے ؟‘‘ میں نے عر ض کی : جی ہا ں  ۔ تو فو راً ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ایک ڈَول میری طرف لٹکا دیا جو پانی سے بھرا ہوا تھا، میں اُس سے سیراب ہوا اور اب اِس وَقْت بھی اُس پانی کی ٹھنڈک اپنی دونوں چھا تیو ں اور دونوں کندھو ں کے درمیا ن محسو س کررہاہوں ۔ پھر حُضُو رِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم، شا فِعِ اُمَم، سراپا جو دُو کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا :  اِنْ شِئْتَ نُصِرْتَ عَلَیْہِمْ وَاِنْ شِئْتَ اَفْطَرْتَ عِنْدَنَا ’’ یعنی اگر تمہا ری خو اہِش ہو تو ان لوگوں کے مقابلے میں تمہا ری امداد کروں اور اگر تم چاہو تو ہما رے پا س آکر روزہ افطارکر و ۔ ‘‘ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربارِ پرُ انوار میں حا ضر ہو کر روزہ افطار کر نا مجھے زیا دہ عزیز ہے ۔ حضر ت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہو کر چلا آیا اور اُسی روز باغیوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو شہید کر دیا ۔ ( کتابُ المنامات مع موسوعۃالامام ابن ابی الدنیاج۳ص۷۴رقم ۱۰۹)

         حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  نقْل کرتے ہیں کہ حضرتِ علّامہ ابنِ باطِیش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ( مُتَوَفّٰی655ہجری )اس سے یہی سمجھتے ہیں کہ (سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدار والا) یہ واقِعہ خواب میں نہیں بلکہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔  (الحاوی للفتاوی للسیوطی  ج۲ص۳۱۵)

کئی دن تک رہے محصور ان پر بند تھا پانی

شہادت حضرتِ عثمان کی بے شک ہے لاثانی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بے کسوں کا سہارا ہمارا نبی

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے معلوم ہوا کہ سرکار نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بعطائے پروردگار عَزَّوَجَلَّ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے تمام حالات ظاہر و آشکار تھے ، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بے کسوں کے مدد گار بھی ہیں جبھی تو فرمایا :  اِنْ شِئْتَ نُصِرْتَ عَلَیْہِمْ’’یعنی اگر تمہا ری خو اہِش ہو تو ان لوگوں کے مقابلے میں تمہا ری امداد کروں  ۔ ‘‘

غمزدوں کو رضاؔ مژدہ دیجے کہ ہے

بیکسوں کا سہارا ہمارا نبی(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خون ریزی نا منظور

            حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کیبے مثال صبر و تحمّل پر قربان! جامِ شہادت تو نوش فرمالیا مگرمدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مسلمانوں کا خون بہنا پسند نہ فرمایا ۔  آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مکانِ عالیشان کا مُحاصَرہ ہوا اور پانی بند کر دیا گیا ۔  جاں نثاروں نے دولت خانے پر حاضِر ہوکر بَلوائیوں سے مقابلے کی اجازت چاہی مگر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے اجازت دینے سے انکار فرما دیااورجب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے غلام ہتھیاروں سے لیس ہو کر اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو فرمایا : اگر تم لوگ میری خوشنودی چاہتے ہو تو ہتھیار  کھول دو اور سُنو! تم میں سے جو بھی غلام ہتھیار کھول دے گا میں نے اُس کو آزاد کیا ۔  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! خون ریزی سے پہلے میرا قَتْل ہو جانا مجھے زیادہ مَحْبوب ہے بمقابلہ اِس کے کہ میں خون ریزی کے بعد قتل کیا جاؤں   ۱؎ 

Index