کراماتِ عثمان غنی مع دیگر حکایات

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

کراماتِ عثمانِ غنی (مع دیگر حکایات)[1]

 شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ(32صَفْحات)مکمَّل پڑھ لیجئے

اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ کا دل عَظَمتِ صَحابہ سے لبریز ہو جائیگا ۔

دُرُود شریف کی فضیلت

         سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے  : ’’اے لوگو ! بے شک بروزِ قِیامت اسکی دَہشتوں (یعنی گھبراہٹوں ) اور حساب کتاب سے جلد نَجات پانے والا شخص وہ ہوگاجس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دُرُودشریف پڑھے ہوں گے ۔ ‘‘ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۵ص۲۷۷ حدیث۸۱۷۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پُراَسرار مَعذور

        حضرتِ سیِّدُنا ابُو قِلابَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا بیان ہے کہ میں نے مُلکِ شام کی سرزمین میں ایک آدَمی دیکھا جو بار بار یہ صدا لگا رہا تھا :  ’’ہائے افسوس! میرے لئے جہنَّم ہے  ۔ ‘‘میں اُٹھ کر اس کے پاس گیاتو یہ دیکھ کر حیران رَہ گیا کہ اس کے دونوں ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہیں ، دونوں آنکھوں سے اندھا ہے اورمُنہ کے بل زمین پر اَوندھا پڑا ہو ابارباریِہی کہے جا رہا ہے : ’’ہائے افسوس ! میرے لئے جہنَّم ہے ۔ ‘‘ میں نے اُس سے پوچھا :  اے آدَمی ! کیوں اورکس بِنا پر تُو یہ کہہ رہا ہے ؟ یہ سُن کر اس نے کہا :  اے شخص! میرا حال نہ پوچھ، میں اُن بدنصیبوں میں سے ہوں جو امیرُالْمؤمنین حضرت ِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کرنے کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مکان میں داخِل ہو گئے تھے ، میں جب تلوار لے کر قریب پہنچا توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجۂ محترمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَامجھے زورزور سے ڈانٹنے لگیں تو میں نے غصّے میں  آ کر بی بی صاحِبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو تَھپَّڑماردیا !یہ دیکھ کر امیرُالمؤمنین حضرت سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ دعا مانگی :  ’’اللہ تعالیٰ تیرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے ، تجھے اندھا کرے اور تجھ کو جہنَّم میں جھونک دے ۔ ‘‘ اے شخص! امیرُالمؤمِنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا پُر جلال چِہرہ دیکھ کر اوراُن کی یہ قاہِرانہ دعا سن کر میرے بدن کا ایک ایک رُونگٹا کھڑا ہوگیا اور میں خوف سے کانپتا ہوا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔  میں امیرُالمؤمِنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی چاردُعاؤں میں سے تین کی زَد میں تو آچکا ہوں ، تم دیکھ ہی رہے ہوکہ میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹ چکے اور آنکھیں بھی اندھی ہوچکیں ، آہ! اب صِرْف چوتھی دعا یعنی میرا جہنَّم میں داخِل ہونا باقی رہ گیا ہے ۔ (اَلرِّیاضُ النَّضرۃ لِلْمُحِبِّ الطَّبَرِی ج۳ ص۴۱)

دو جہاں میں دشمنِ عثماں ، ذلیل و خوار ہے

بعد مرنے کے عذابِ نار کا حقدار ہے

کُنْیَت و اَلقاب

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! 18 ذُوالحِجَّۃِ الْحرام 35 سنِ ہجری کواللّٰہُ غنی عَزَّوَجَلَّ کے پیارے نبی، مکّی مَدَنی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیلُ القَدْرصَحابی عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نہایت مظلومیَّت کے ساتھ شہید کئے گئے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  خُلَفائے راشِدین (یعنی حضرت سیِّدُنا ابوبکر صِدّیق، حضرت سیِّدُنا عمر فاروق، حضرت سیِّدُناعثمانِ غنی، حضرت سیِّدُنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن) میں تیسرے خلیفہ ہیں ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی کُنْیَت ’’ابو عَمْرو‘‘ اور لقب جامع القراٰن ہے نیز ایک لقب ’’ذُوالنُّورَین‘‘(دو نور والے ) بھی ہے ، کیونکہ اللّٰہُ غَفُور عَزَّوَجَلَّ کے نور، شافعِ یومُ النُّشور، شاہِ غَیور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی دو شہزادیاں یکے بعد دِیگرے حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے نکاح میں دِی تھیں ۔   ؎

نُور کی سرکار سے پایا دو شالہ نُور کا

ہو مبارَک تم کو ذُوالنُّورَین جوڑا نور کا(حدائقِ بخشش شریف)

        آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے آغازِ اسلام ہی میں قَبولِ اسلام کر لیا تھا، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ    کو ’’صاحِبُ الْھِجْرَتَیْن‘‘(یعنی دو ہجرتوں والے ) کہا جاتا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی طرف ہجرت فرمائی ۔

دو بار جنَّت خریدی

            امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شانِ والا بَہُت بُلند وبالا ہے ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی مبارَک زندگی میں نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت، مالِکِ جنّت ، تاجدارِ نُبُوَّت، شَہَنْشاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دو مرتبہ جنّت خریدی، ایک مرتبہ ’’بیرِرُومہ‘‘ یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وَقْف کر کے اور دُوسری بار ’’جَیْشِ عُسْرَت‘‘ کے موقع پر  ۔ چُنانچِہ’’ سُنَنِ تِرمِذی‘‘ میں ہے  : حضرتِ سیِّدُنا عبدُالرحمن بن خَبّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہے کہ میں بارگا ہِ نَبَوی عَلٰی صَاحِبِھَاالصَّلٰوۃُوَالسَّلام میں حاضِر تھا اور حُضورِ اکرم ، نورِمُجَسَّم ،



[1]    یہ بیان امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامیکے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ( باب المدینہ) کراچی میں ہو نے والے (۲۰ ذُوالحِجّۃِ الحرام   ۱۴۲۹؁ھ۔2008 ء کے) سنّتوں بھرے اجتماع میں فرمایا جو ترمیم و اضافے کے ساتھ طبع کیا گیا۔                                ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ

Index