کراماتِ عثمان غنی مع دیگر حکایات

رسولِ محترم، رَحْمتِ عالَم ، شاہِ بنی آدم ، نبیِّ مُحْتَشَم، سراپا جُودو کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان کو ’’جَیشِ عُسْرَت ‘‘(یعنی غَزوۂ تَبوک ) کی تیّاری کیلئے ترغیب ارشاد فرما رہے تھے ۔ حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عَفّان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُٹھ کر عَرْض کی  : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پالان اور دیگر  مُتَعَلِّقَہ سامان سَمیتسو۱۰۰ اُونٹمیرے ذِمّے ہیں ۔ حُضورسراپا نور، فیض گَنجور، شاہِ غَیُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان سے پھرتَرغِیباً فرمایا ۔ تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی :  یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  !میں تمام سامان سَمیت دو۲۰۰   سو  اُونٹ حاضِر کرنے کی ذِمّہ داری لیتا ہوں  ۔ دو۲  جہاں کے سلطان ، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان سے پھرتَرغِیباً ارشاد فرمایا تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں مع سامان تین۳۰۰ سو اُونٹ اپنے ذمّے قَبول کرتا ہوں  ۔

            راوی فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حُضورِ انور ، مدینے کے تاجور ، شافِعِ مَحْشر ، بِاِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر، محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے یہ سن کر مِنبرِ مُنَوَّر سے نیچے تشریف لاکر دومرتبہ فرمایا : ’’ آج سے عثمان(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)جوکچھ کرے اُس پر مُواخَذَہ (یعنی پوچھ گچھ) نہیں  ۔ ‘‘ (تِرْمِذی ج۵ ص۳۹۱ حدیث ۳۷۲۰)

اِمامُ الاَسخِیاء! کردو عطا جذبہ سخاوت کا!

نکل جائے ہمارے دل سے حُبِّ دولتِ فانی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

950اُونٹ اور50گھوڑے

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج کل دیکھا گیا ہے کچھ حضرات دوسروں کی دیکھا دیکھی جذبات میں آ کر چندہ لکھو اتو دیتے ہیں مگر جب دینے کی باری آتی ہے تو ان پر بھاری پڑ جا تاہے حتّٰی کہ بعض تو دیتے بھی نہیں !مگرقربان جائیے محبوبِ مصطَفٰے ، سیِّدُ الْاَسْخیاء، عثمانِ با حیا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے جو ُدو سخا پر کہ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے اعلان سے بَہُت زیادہ چندہ پیش کیا چُنانچِہ مُفسّرِشَہیر، حکیمُ الامّت ، حضر ت مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اِس حدیث پاک کے تَحْت فر ماتے ہیں : خیا ل رہے کہ یہ تو اُن کا اعلان تھا مگر حا ضِر کرنے کے وَقت آپ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) نے 950اُونٹ، 50گھوڑے اور 1000 اشرفیاں پیش کیں ، پھر بعد میں 10 ہزار اشرفیا ں اور پیش کیں  ۔ (مفتی صا حب مزید فر ماتے ہیں )خیال رہے کہ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پہلی بار میں ایک 100 کا اعلان کیا ، دُوسری بار 100اونٹ کے علاوہ اور200کا ، تیسری باراور300 کا کل 600اُونٹ (پیش کرنے ) کااعلان فر مایا ۔    (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۳۹۵)

مجھے گر مل گیا بحرِ سخا کا ایک بھی قطرہ

مِرے آگے زمانے بھر کی ہوگی ہیچ سلطانی

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اُمُورِ خیر کیلئے عطیّات جمع کرنا سنَّت ہے

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بعض نادان دینی کاموں کے لئے چندہ کرنا بُرا جانتے اور اس سے روکتے ہیں ، یاد رکھئے ! بِلاوجہ اس کارِ خیر سے روکنے کی شَرْعاً مُمانَعَت ہے چُنانچِہ فتاوٰی رضویہ جلد 23صَفْحَہ127 پر میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنّت مو لانا شا ہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سُوال کے جواب میں ارشا د فرماتے ہیں  : اُمُو ر ِخیر کے لیے مسلمانوں سے اس طرح چندہ کرنا بد عت نہیں بلکہ سنّت سے ثا بِت ہے جو لوگ اس سے

 روکتے ہیں (وہ) مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍۙ(۱۲)[1]  (ترجَمۂ کنز الایمانبھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار) میں داخل ہوتے ہیں ۔ حضرتِ سیِّدُنا جَریر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے ، کچھ(حضرات)بَرَہْنہ پا، بَرَہْنہ بدن، صِرْف ایک کملی کفنی کی طرح چِیر کر گلے میں ڈالے خدمتِ اقدسِ حضورِ پُر نور ، سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضِر ہوئے ، حُضُورِ پُر نور، رَحْمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کی مُحتاجی(یعنی غُربت) دیکھی، چہرۂ انور کا رنگ بدل گیا ۔ بِلال(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کو اَذان کا حکم دِیا، بعدِ نَماز خُطبہ فرمایا، بعدِتلاوتِ آیاتِ مبارَکہ ارشاد کیا : ’’کوئی شخص اپنی اشرفی سے صَدَقہ کرے ، کوئی روپے سے ، کوئی کپڑے سے ، کوئی اپنے قلیل(یعنی تھوڑے ) گیہوں سے ، کوئی اپنے تھوڑے چُھوہاروں سے ، یہاں تک فرمایا : اگرچِہ آدھا چُھوہارا ۔ ‘‘ اِس ارشادِگِرامی(یعنی عطیّات دینے کی ترغیب ) کو سُن کر ایک انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روپیوں کا تھیلا اُٹھا لائے جس کے اُٹھانے میں اُن کے ہاتھ تھک گئے ، پھر لوگ پے دَرپے صَدَقات لانے لگے ، یہاں تک کہ دو انبار  (یعنی 2ڈھیر)کھانے اور کپڑے کے ہو گئے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ انور خوشی کے باعث کُندَن(یعنی خالص سونے )کی طرح دَمکنے لگا اور ارشاد فرمایا : ’’جو شخص اسلام میں کوئی اچّھی راہ نکالے اُس کے لئے اُس کا ثواب ہے اور اُس کے بعد جتنے لوگ اُس راہ پر عمل کریں گے سب کا ثواب اُس(اچھی راہ نکالنے والے )کیلئے ہے بِغیر اس کے کہ اُن  (عمل کرنے والوں ) کے ثوابوں میں کچھ کمی ہو ۔ ‘‘ (مُسلِم ص۵۰۸ حدیث ۱۰۱۷ ) عطیّات کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی 107 صَفْحات پر مشتمل کتاب ’’ چندے کے بارے میں سُوال جواب‘‘ کامطالَعَہ کیجیے ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عُثمانِ غنی کااِتِّباعِ رسول

 



[1]   پ۲۹،القلم:۱۲

Index