بریلی سے مدینہ

پائی تھی کہ عالَمِ اسلام کے مُقتَدر پیشوا اور اپنے وَقت کے عظیم مجدِّد رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اپنا عِمامہ شریف اُس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹَپ آنسو گررہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کررہے ہیں : مُعَزَّ ز شہزادے!  میری گستاخی مُعاف کردیجئے،  بے خَیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی،  ہائے غضب ہو گیا !  جن کی نَعلِ پاک میرے سرکا تاجِ عزّت ہے،  اُن  (یعنی شہزادے) کے کاندھے پر میں نے سُواری کی،  اگر بروزِ قِیامت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھ لیا کہ احمد رضا!  کیا میرے فرزند کا دَوشِ نازنین اِس لیے تھا کہ وہ تیری سُواری کا بوجھ اُٹھائے ؟ تو میں کیا جواب دوں گا!  اُس وَقت میدانِ محشر میں میرے ناموسِ عِشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی۔ کئی بار زَبان سے مُعاف کردینے کا اقرار کروالینے کے بعد امام اہلسنّت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے آخِری التجائے شوق پیش کی : محترم شہزادے!  اس لاشُعُوری میں ہونے والی خطا کا کَفّارہ جبھی ادا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا۔ اس اِلتجا پر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں۔ ہزار انکار کے بعد آخِر کار مزدور شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا۔ یہ منظر کس قَدَر دل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ القَدر امام مزدوروں میں شامِل ہو کر اپنی خداداد علمیّت اور عالمگیرشُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خاطر ایک گُمنام مزدورشہزادے کے قدموں پر نثار کررہا ہے!   (انوارِ رضا ص ۴۱۵)  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ 

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا

           تُو ہے عینِ نُور تیرا سب گھرانا نُور کا (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دُنیوی علوم میں مَہارت کی نادِر حکایت

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  جس کی اُلفت ِ آلِ رسول کی یہ حالت ہو اس کے عشقِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کون اندازہ کرسکتا ہے! امامِ اہلسنَّت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ جہاں ایک عاشقِ رسول  اور باکرامت ولی تھے وَہیں ایک  زبردست عالمِ دین بھی تھے ،  کم و بیش پچاس  عُلُوم پر آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو کامِل دسترس  (یعنی مَہارت)  حاصِل تھی۔ دِینی عُلُوم کی بَرَکت سے دُنیوی عُلُوم خود آگے بڑھ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے قدم چومتے تھے۔ اس ضِمن میں ایک حیرت انگیز واقِعہ پڑھئے اورجُھومئے ۔ چُنانچِہعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضِیاء ُ الدِّین نے یورپ میں تعلیم حاصِل کی تھی اوربَرِّ صغیر کے صفِ اوّل کے رِیاضی دانوں میں سے ایک تھے۔ اِتِّفاق سے رِیاضی کے ایک مسئلے میں اِن کو مشکِل پیش آئی ، بُہتیرا سر کھپایا مگر حل سمجھ میں نہ آیا ۔ چُنانچہ جرمنی جا کراس مسئلے کو حل کرنے کا قَصد کیا۔ حضرتِ علامہ سیّد سُلَیمان اشرف صاحب قادِری رِضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ القَوِی اس دَور میں یونیورسٹی کے شُعبۂ دِینیات کے ناظِم تھے ۔ اُنہوں نے ڈاکٹر صاحِب کو مشورہ دیا بلکہ اِصرار کیا کہ آپ جرمنی جانے کی تکلیف اُٹھانے کے بجائے یہاں سے چند گھنٹے کا سفر کرکے بریلی شریف چل کر اِمامِ اہلسنّت حضرتِ مولانا امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن سے اپنا مسئلہ حل کروالیجئے۔ ڈاکٹر صاحِب نے حیرت سے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں !  کیا یہ ریاضی کا مسئَلہ کوئی ایسا مولانا بھی حل کرسکتا ہے جس نے کبھی کالج کا منہ تک نہ دیکھا ہو،  نابابا !  بریلی شریف جا کر اپنا وَقت ضائِع نہیں کرسکتا۔ مگر سیِّدسُلیمان شاہ صاحِب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے پَیہم اِصرار پر وہ ان کے ساتھ مدینۃُ المرشِد بریلی شریف حاضِر ہوگئے۔ امام اہلسنّت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں حاضری دی۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی طبیعت ناساز تھی لہٰذا ڈاکٹر صاحِب نے عَرض کی: مولانا !  میرا مسئلہ بے حد پیچیدہ ہے،  ایک دم دریافت کرنے جیسا نہیں ،  ذرا اطمینان کی صورت ہو تو عَرض کروں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فرمایا: آپ بیان کیجئے۔ ڈاکٹر صاحِب نے مسئَلہ پیش کیا امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمادیا،  جواب سُن کر ڈاکٹر صاحِب سَکتے میں آگئے اور بے اختیار بول اُٹھے کہ آج تک عِلمِ لَدُنّی (یعنی اللہ تعالی کی طرف سے براہِ راست ملنے والے علم)  کا سنتے تو تھے مگر آج آنکھوں سے دیکھ لیا۔ میں تو اِس مسئلے

Index