بریلی سے مدینہ

امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کو دیکھتے ہی گرج کر کہا: تم کون ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اِنتہائی نرمی سے فرمایا :محترمہ !  آپ کی بہتری کے لیے حاضِر ہوا ہوں۔ والِدہ بدستور گرج کر بولیں۔ بڑے آئے بہتری کرنے والے!  جو چاہتی ہوں و ہ بہتری کردو گے؟ فرمایا:  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ۔ والِدہ نے کہا:  ’’ مولا علی مُشکِلکُشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ،  الْکَرِیْم کا دیدار کروادو!  ‘‘  یہ سنتے ہی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اپنے شانۂ مبارَک سے چادر شریف اُتار کر اپنے چہرۂ مُبارک پر ڈالی اور مَعاً  (یعنی فوراً)  ہٹالی۔ اب ہماری نظروں کے سامنے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نہیں بلکہمولا علی مُشکِلکُشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ،  الْکَرِیْم اپنا  چِہرہ چمکاتے کھڑے تھے۔ ہماری بوڑھی والدہ نِہایت سنجیدگی کے ساتھ جلووں میں گم تھیں ،  میں نے اور والِدِ محترم نے بھی خُوب جی بھر کر جاگتی آنکھوں سے  مولا علی مُشکِلکُشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ،  الْکَرِیْم کی زیارت کی۔ پھرمولا علی مُشکِلکُشا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنی چادر مُبارک اپنے چِہرے پر ڈال کر ہٹائی تو اب اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ ہمارے سامنے مُتَبَسِّم  (یعنی مُسکراتے )  کھڑے تھے۔ پھر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے ایک شِیشی میں دوا عطا فرمائی اورارشاد فرمایاـ:دو خُوراک دوا ہے،  ایک خُوراک مریضہ کو دینا اگرضَرورت محسوس نہ ہو تو دوسری خُوراک ہر گز مت دینا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ! ہماری والِدہ صِرف ایک خُوراک (یعنیDose)  میں تندرُست ہوگئیں جب تک زندہ رہیں کوئی دِماغی خرابی نہ ہوئی۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔       

   اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

قسمت میں لاکھ پیچ ہوں سو بل ہزار کَج

      یہ ساری گُتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے  (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بابَرَکت چَوَنّی

          ایک باراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کو حاجیوں کے استقبال کے لیے بندرگاہ جانا تھا،  طے شُدہ سُواری کو آنے میں تاخیر ہوگئی تو ایک اِرادت مند غُلام نبی  مستری بِغیر پوچھے تانگہ لینے چلے گئے ۔ جب تانگہ لے کر پلٹے تو دُور سے دیکھا کہ سواری آچکی ہے لہٰذا تانگے والے کو چَوَنِّی  ( ایک روپے کا چوتھائی حِصّہ)  دے کر رخصت کیا۔ اِس واقعہ کا کسی کو علم نہیں تھا ۔ چار۴ روز کے بعد مستری صاحِب بارگاہِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ میں حاضِر ہوئے تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے انہیں ایک چَوَنِّی عطا فرمائی۔ پوچھا: کیسی ہے؟ فرمایا:اُس روز تانگے والے کو آپ نے دی تھی۔ مستری صاحِب حیران ہوگئے کہ میں نے کسی سے اِس بات کامُطلَق تذکِرہ نہیں کیا پھر بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کو معلوم ہوگیا۔ اِنہیں اِس طرح سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھ کر حاضِرین نے کہا: میاں بابَرَکت چَوَنِّی کیوں چھوڑتے ہو!  تبرُّک کے طور پر رکھ لو۔ اُنہوں نے رکھ لی۔ جب تک وہ بابَرَکت چَوَنِّی ان کے پاس رہی کبھی پیسوں میں کمی نہ ہوئی۔ (مُلَخَّص ازحیاتِ اعلٰی حضرت ج۳ص۲۶۰مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ 

    اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم    

ہاتھ اُٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم!

ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم    (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قید سے چھوٹ تو گئے۔۔۔۔!

          ایک بُڑھیا جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کی مُریدَنی تھیں۔ ان کے شوہر پرقَتل کا مُقدَّمہ دائر ہو کر سزا کا حُکم ہوگیا تھا کہ پانچ ہزار جُرمانہ اور بارہ سال قید۔ اس کی اپیل کی گئی۔ جب سے اپیل ہوئی تھی ان کا بیان ہے کہ میں روزانہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضِر ہوا

Index