بریلی سے مدینہ

تھی لہٰذا ان کو ایک ہی اَمرِتی ملی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ ان کو دو دیجئے۔ تقسیم کرنے والے نے عَرض کی: حُضور !  ان کے داڑھی نہیں ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے مسکرا کر فرمایا : ’’  اِن کا دل چاہ رہا ہے،  ایک اور دیجئے۔ ‘‘  یہ کرامت دیکھ کر وہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کے مُرید ہوگئے۔اور بُزُرگانِ دین کی تعظیم کرنے لگے۔    (تجلِّیاتِ امام احمد رضا ص۱۰۱ )  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

      اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

دل کی جو بات جان لے روشن ضمیر ہے

اُس حضرتِ رضا کو ہمارا سلام ہو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بارِش برسنے لگی

          اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کی خدمت میں ایک نُجُومی حاضر ہوا ،   آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اُس سے فرمایا:کہئے،  آپ کے حساب سے بارِش کب آنی چاہیے؟ اس نے زائچہ بنا کر کہا : ’’  اس ماہ میں پانی نہیں آیَندہ ماہ میں ہوگی۔ ‘‘  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر بات پر قادِر ہے وہ چاہے تو آج ہی بارِش برسادے۔ آپ سِتاروں کو دیکھ رہے ہیں اور میں ستاروں کے ساتھ ساتھ سِتارے بنانے والے کی قدرت کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ دیوار پر گھڑی لگی ہوئی تھی آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے نُجُومی سے فرمایا :کتنے بجے ہیں ؟ عَرض کی: سوا گیارہ۔ فرمایا:بارہ بجنے میں کتنی دیر ہے؟ عرض کی: پون گھنٹہ۔ فرمایا:پون گھنٹے سے قبل بارہ بج سکتے ہیں یا نہیں ؟ عَرض کی: نہیں ،  یہ سُن کر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ اُٹھے اور گھڑی کی سُوئی گھمادی،  فوراً ٹن ٹن بارہ بجنے لگے۔ نُجُومی سے فرمایا : آپ تو کہتے تھے کہ پَون گھنٹے سے قبل بارہ بج ہی نہیں سکتے۔ تو اب کیسے بج گئے؟ عَرض کی: آپ نے سُوئی گھمادی ورنہ اپنی رفتار سے تو پون گھنٹے کے بعد ہی بارہ بجتے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ قادِرِ مُطلَق ہے کہ جس سِتارے کو جس وَقت چاہے جہاں چاہے پہنچادے۔ آپ آیَندہ ماہ بارِش ہونے کا کہہ رہے ہیں اور میرا رب عَزَّ وَجَلَّ چاہے تو آج اور ابھی بارِش ہونے لگے۔ زَبانِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ سے اِتنا نکلنا تھا کہ چاروں طرف سے گھنگھور گھٹا چھا گئی اور جھوم جھوم کر بارِش برسنے لگی۔ (انوارِ رضا ،  ص ۳۷۵ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

        موت نزدیک گناہوں کی تہیں مَیل کے خَول

آ برس جا کہ نَہا دھو لے یہ پیاسا تیرا    (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مزدور شہزادہ

          مدینۃُ المرشِد بریلی شر یف کے کسی مَحَلّے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن مَدعُو تھے۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کے لیے پالکی کا اِہتمام کیا۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ سُوار ہوگئے اور چار۴ مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے پالکی میں سے آواز دی: ’’ پالکی روک دیجئے ‘‘  پالکی رُک گئی۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فوراً باہَر تشریف لائے اور بَھرّائی ہوئی آواز میں مزدوروں سے فرمایا: سچ سچ بتایئے آپ میں سیِّدزادہ کون ہے؟ کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشبو محسوس کررہا ہے،  ایک مَزدُور نے آگے بڑ ھ کر عَرض کی: حُضور !  میں سیِّدہوں۔ ابھی اس کی بات مُکمل بھی نہ ہونے

 

Index