بریلی سے مدینہ

تشریف لے جاچکے تھے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

      اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

آقا کے قدموں میں موت

{۲} دوسرا قابلِ صدر شک منظر یہ دیکھا کہ ایک دراز قد،  تَنُومَند نوجوان سرکارِ دو جہان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے آستانِ عرش نشان پر حاضِر تھا اور قَدَمین شریفین میں ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگ رہا تھا کہ یکایک گرا اور سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں پر نثار ہوگیا!  والِد صاحِب نے بتایا کہ لوگوں کی بھیڑ لگ گئی،  مُختلفُ اللِّسان مسلمان اپنی اپنی زَبان میں اُس خوش نصیب نوجوان کی ایمان افروز موت پر رشک کررہے تھے۔ آہ کاش !    ؎

یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مِرا

       میں خاک پر نگاہ درِ   یار کی طرف      (ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

پھانسی گھر سے اپنے گھرتک

          اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کے ایک مُرید امجد علی خان قادِری رضوی شکار کے لیے گئے۔ اُنہوں نے جب شکار پر گولی چلائی تو نِشانہ خطاہوگیا اور گولی کسی راہگیر کو لگی جس سے وہ ہَلاک ہوگیا،  پولیس نے گِرفتار کرلیا،  کور ٹ میں قتل ثابت ہوگیا اور پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ عزیز و اَقرِبا تاریخ سے پہلے روتے ہوئے مُلاقات کے لیے پہنچے تو امجد علی صاحِب کہنے لگے:آپ سب مُطمئن رہئے مجھے پھانسی نہیں ہوسکتی کیونکہ میرے پیرومرشِد سیِّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے خواب میں آکر مجھے یہ بِشارت دے دی ہے: ’’ ہم نے آپ کو چھوڑ دیا۔ ‘‘ رو دھو کر لوگ چلے گئے۔ پھانسی کی تاریخ والے روز مامتا کی ماری ماں روتی ہوئی اپنے لال کا آخِری دیدار کرنے پہنچی۔ سُبْحٰنَ اللہ سُبْحٰنَ اللہ اپنے مرشِد پر اِعتِقاد ہو تو ایسا!  ماں کی خدمت میں بھی بڑے اِعتماد سے عرض کردی: ’’ ماں آپ رَنجیدہ نہ ہوں ،  گھر جائیے،   اِنْ شَآءَ اللہ آج کاناشتا میں گھر آکر ہی کروں گا۔ ‘‘  والِدہ  کے جانے کے بعد امجد علی کو پھانسی کے تختے پر لایا گیا،  گلے میں پھندا ڈالنے سے پہلے حسبِ دستور جب آخِری آرزو پوچھی گئی تو کہنے لگے: ’’  کیا کرو گے پوچھ کر؟ ابھی میراوَقت نہیں آیا ۔  ‘‘  وہ لوگ سمجھے کہ موت کی دَہشت سے دِماغ فَیل ہوگیا ہے!  چُنانچہ پھانسی گَرنے پھندا گلے میں پہنادیا کہ تار آگیا:مَلِکہ وِکٹوریہ کی تاجپوشی کی خوشی میں اتنے قاتِل اور اِتنے قَیدی چھوڑ دیئے جائیں۔ فوراً پھانسی کا پھندا نکال کر ان کو تختے سے اُتار کر رِہا کردیا گیا۔ اُدھر گھر پر کُہرام مچا ہوا تھا اور لاش لانے کا اِنتظام ہورہا تھا کہ اَمجد علی قادِری رضوی صاحب پھانسی گھر سے سیدھے اپنے گھر آپہنچے اور کہنے لگے: ناشتا لائیے!  میں نے کہہ جو دیا تھا کہ اِنْ شَآءَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ ناشتا گھر آکر کروں گا۔  (تجلّیاتِ امام احمد رضا ص  ۱۰۰بِتَصَرُّفٍ،  برکاتی پبلشرز بابُ المدینہ کراچی )  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

    اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

آہیں دلِ اَسیر سے لب تک نہ آئی تھیں

اورآپ دوڑے آئے گرفتار کی طرف  (ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مُشکل کُشا کا دیدار

          بعض اِسلامی بھائیوں کو بابُ المدینہ کراچی کے ایک مُعَمَّر کاتِب عبدالْمَاجِد بن عبدالمالِک پیلی بھیتی نے یہ ایمان افروز واقِعہ سُنایا: میری عُمر اُس وَقت تیرہ برس تھی،  میری سُوتیلی والِدہ کا ذِہنی توازُن خراب ہوگیا تھا،  اُن کو زَنجیروں میں جکڑ کر چھَت پر رکھا جاتا تھا،  بَہُت علاج کروایا مگر اِفاقہ نہ ہوا ۔ کسی کے مشورہ پر میں اور میرے والِد صاحِب والِدہ کو زنجیروں میں جکڑ کر جُوں تُوں پیلی بھیت سے بریلی شریف لائے، والِدۂ محترمہ مسلسل گالیاں بکے جارہی تھیں۔ اعلیٰ حضرت

Index