بریلی سے مدینہ

کرتی تھی۔ فیصلے کی تاریخ سے چند روز قبل بڑی بی پردے میں لپٹی ہوئی بارگاہِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ میں فریاد لے کر حاضِر ہوئیں۔ فرمایا: کثرت سے حَسْبُنَا اللہ وَنِعْمَ الْوَکِیۡلُ پڑھئے ۔ وہ چلی گئیں۔ درمیان میں کئی بار حاضِر ہوئیں۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ وُہی فرمادیا کرتے۔ یہاں تک کہ فَیصلے کی تاریخ آگئی۔ حاضِر ہو کر عرض کی: حُضُور!  آج فیصلہ ہونا ہے۔ فرمایا : ’’ وُہی پڑھئے۔ ‘‘  بڑی بی وُہی پُرانا جواب سُن کر کچھ خَفا سی ہوگئیں اور یہ بُڑبڑاتے ہوئے چل دیں کہ جب اپنا پیر ہی نہیں سنتا تو دوسرا کون سُنے گا!  جب آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے یہ کیفیَّت دیکھی تو فوراً آواز دے کر بڑی بی کو بُلالیا اور فرمایا: پان کھالیجئے،  بڑی بی نے عَرض کی: میرے منہ میں پان موجو دہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اِصرار کیا لیکن وہ کچھ ناراض سی تھیں۔ پھر آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے اپنے دستِ مُبارَک سے پان بڑھاتے ہوئے فرمایا: چھوٹ تو گئے اب تو پان کھالیجئے!  اب بڑی بی نے خوش ہو کر پان کھالیا اور گھر کی طرف چَل دِیں۔ جب گھر کے قریب پہنچیں تو بچّے دَوڑے ہوئے آئے اور کہنے لگے: آپ کہاں تھیں ؟ تار والا ڈھونڈتا پھررہا ہے،  خوشی میں گھر گئیں تارلیا اور پڑھوایا تو معلوم ہوا شوہر صاحِب بَری ہوگئے ہیں۔  (حیاتِ اعلٰی حضرت ج۳ص۲۰۲)  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

تمنّا ہے فرمایئے روزِ مَحشر

یہ تیری رِہائی کی چٹھی ملی ہے        (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بِیمارِ بَخت بَیدار

      سیِّدقَناعت علی شاہ صاحِب کمزور دل کے تھے۔ ایک بار کسی مریض کے خطرناک آپریشن کی تفصیل سُن کر صدمے سے بے ہوش ہوگئے ،  لاکھ جتن کیے گئے لیکن ہوش نہ آیا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن کی خدمت میں درخواست پیش کی گئی ۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ سیّد زادے کے سِرہانے تشریف لائے۔ نہایت ہی شَفقت کے ساتھ ان کا سر اپنی گود میں لیا اور اپنا مُبَارک رومال ان کے چِہرے پر ڈالا کہ فوراً ہوش آگیا اور آنکھیں کھول دیں۔ زَمانے کے ولی کی گود میں اپنا سردیکھ کر جھوم گئے تعظیم کی خاطر اُٹھنا چاہا مگر کمزوری کے سبب نہ اُٹھ سکے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔     

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

سرِ بالیں انہیں رَحمت کی ادا لائی ہے

حال بگڑا ہے تو بِیمار کی بن آئی ہے       (ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دل کی بات جان لی

          مدینۃ المرشِد بریلی شریف میں ایک صاحِب تھے جو بزرگانِ دین کو اَھَمِّیَّت نہ دیتے تھے اور پِیر ی مُر یدی کو پیٹ کا ڈَھکوسلا کہتے تھے۔ ان کے خاندان کے کچھ افراد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن سے بیعت تھے۔ وہ لوگ ایک دن کسی طرح سے بہلا پھُسلاکر اِن کو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی زِیارت کے لیے لے چلے۔ راستے میں ایک حَلوائی کی دُکان پر گَرم گَرم اَمرِتیاں  ( ماش کے آٹے کی مٹھائی جو جلیبی کے مُشابہ ہوتی ہے)  تلی جارہی تھیں ،  دیکھ کر اِن صاحِب کے منہ میں پانی آگیا۔ کہنے لگے: ’’ یہ کھِلاؤ تو چلوں گا۔ ‘‘  ان حضرات نے کہا کہ واپَسی میں کھلائیں گے پہلے چلو۔ بَہَرحال سب لوگ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں حاضِر ہوگئے۔ اِتنے میں ایک صاحِب گَرم گَرم اَمرِتِیوں کی ٹوکری لے کرحاضِر ہوئے،  فاتِحہ کے بعد سب کو تقسیم ہوئیں۔ دربارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا قاعِدہ تھا کہ ساداتِ کرام اور داڑھی والوں کو دُگنا حصّہ ملتا تھا،  چُونکہ ان صاحِب کی داڑھی نہیں

Index