قسم کے بارے میں مدنی پھول

رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم،  شاہِ آدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:   ’’ جو شخص قسم کھائے اور اس کے ساتھ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہہ لے تو حانِث (یعنی قسم توڑنے والا)  نہ ہوگا۔ ‘‘  ) تِرمِذی  ج۳،  ص۱۸۳حدیث ۱۵۳۶)

          مُفَسِّرِشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں  : یعنی قسم سے مُتَّصِل (یعنی فوراً بعد)  کہہ دے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ۔ خُلاصہ یہ ہے کہ اگر وعدے یا قسم سے مُتَّصِل اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہہ دیا جائے تو اُس کے خلاف کرنے پر نہ گناہ ہے نہ کفَّارہ۔     (مراٰۃ المناجیح ج ۵ ص ۲۰۱)

بڑی بڑی مونچھوں  والا بدمعاش

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  حُصولِ علمِ دین کے لئے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں  بھرے اجتماعات بھی اہم ذَرِیعہ ہیں  ، آپ بھی اپنے شہر میں  ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں  بھرے اجتماعات میں  شرکت کیجئے ،  ان اجتماعات کی بَرَکت سے کیسے کیسے بگڑے ہوئے لوگوں  کی زندگی میں  مَدَنی انقلاب برپا ہوگیا ، اس کی ایک جھلک اس مَدَنی بہار میں  مُلاحَظہ کیجئے ،  چُنانچہ ایک عالِم صاحِب جو کہ دعوتِ اسلامی کے مبلِّغ ہیں  انہوں  نے بتایا کہ 1995 میں ایک شخص جس پر کم و بیش11ڈکیتیوں  کے کیس تھے جن میں  ایک قتل کا مقدَّمہ بھی شامِل ہے۔ ایک سال جیل کی سَلاخوں  کے پیچھے بھی رہا تھا۔محکمۂ نَہْر میں  ملازَمت بھی تھی ۔ تنخواہ 3000تھی مگر وہ نا جا ئز ذرائِع سے مَثَلاَ دَ رَخت فَروخت کرکے،  چوری کا پانی وغیرہ دے کرماہانہ 10000تک کرلیتا۔ اس نے بڑی بڑی مونچھیں  رکھی تھیں ،  دیکھنے والے کو اس سے وَحشت ہوتی۔ ایک روز میں  نے اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے اُسے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں  بھرے اجتِماع کی دعوت پیش کی مگر اس نے میری دعوت ٹال دی،  میں  نے ہمّت نہیں  ہاری وقتاً فوقتاً دعوت پیش کرتا رہا ۔ آخِرِ کارکم و بیش دو سال بعداس نے دعوت قبول کر لی اور و ہ ’’ ریوالور ‘‘ کے ساتھ اجتِماع میں  شریک ہوگیا۔ اِتِّفاق سے اُس دن میرا ہی بیان تھا جو کہ جہنَّم کے عذاب کیمُتَعلِّق تھا۔ جہنَّم کی تباہ کاریاں  سُن کر سخت سردیوں  کا موسِم ہونے کے باوُجُود بد مَعاشپسینے سے شرابور ہوگیا۔ بعد اجتِماع وہ روتا جاتا اور کہتا جاتا : ہائے!  میرا کیا بنے گا! میں  نے بَہُت سارے گناہ کئے ہیں ۔ پھر وہ تین دن بخار کے عالَم میں  رہا۔ اسے اپنے گناہوں  کا شدَّت سے اِحساس ہوچکا تھا،  اس نے توبہ کرلی اورنَمازیں  بھی پڑھنے لگا۔ دوسری جُمعرات اسے پھر اجتِماع میں  شرکت کی سعادت ملی اور جنَّت کے موضوع پر بیان سن کر اُس کو ڈھار س ملی۔ آہِستہ آہِستہ اس پر مَدَنی رنگ چڑھتا چلا گیا۔ یہاں  تک کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہو گیا۔اس نے گھر سے. T.Vنکال باہَر کیا (کیوں کہ اس میں صرف گناہوں بھرے چینلز ہی دیکھے جاتے تھے،  ’’ مدنی چینل  ‘‘ شروع نہ ہوا تھا)   داڑھی اور سبز عمامہ  سجانے کی سعادت بھی حاصِل کر لی۔یہ بیان دیتے وَقت وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں  میں  مشغول تنظیمی طور پر صوبائی سطح پر مجلسخُدّامُ المساجد کی ذمّے داری پر فائز ہے۔

اگر چور ڈاکو بھی آجائیں  گے تو    سدھر جائیں  گے گر ملا مَدَنی ماحول

گنہگارو آؤ،  سِیہ کارو آؤ           گناہوں  کو دیگا چھڑا مَدَنی ماحول

 (وسائلِ بخشش ص۲۰۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قسم کی حفاظت کیجئے

          دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ ترجَمے والے پاکیزہ قراٰن ،  ’’  کنزالایمان مَع خزائن العرفان ‘‘ صَفْحَہ516 تا 517 پر پارہ 14 سُوْرَۃُ النَّحَلآیت نمبر 91میں  ارشادِ ربُّ العِباد ہے:

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ (۹۱)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں  مضبوط کر کے نہ توڑو اور تم اللہ کواپنے اوپر ضامِن کر چکے ہو،  بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔

اورپارہ 7 سُوْرَۃُالْمَائِدَہکی آیت 89میں اللہ عَزَّ وَجَلَّفرماتا ہے:

وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان: اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو۔

          صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیتفسیر ’’ خزائنُ العرفان ‘‘ میں  اس آیت کے تَحت لکھتے ہیں : یعنی انہیں  پورا کرو اگر اس میں  شَرعاً کوئی حرج نہ ہو اور یہ بھی حفاظت ہے کہ قَسمکھانے کی عادت ترک کی جائے ۔

بہتر کام کرنے کے لئے قَسَم توڑنا

          حضرتِ سیِّدُناعَدی بن حاتِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں  کہ میرے پاس ایک شخص 100 دِرہَم مانگنے آیا ، میں  نے ناراض ہوتے ہوئے کہا :  تم مجھ سے صِرف 100دِرہَم مانگ رہے ہو حالانکہ میں  حاتِم (طائی)  کا بیٹا ہوں ، اللہکی قسم!  میں  تمہیں  نہیں  دوں  گا ۔ پھر میں  نے کہا:  اگر میں  نے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا یہ ارشادِ پاک نہ سنا ہوتاکہ   ’’ جس شخص نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اُس نے اِس سے بہتر چیز کا خیال کیا تو وہ اُس بہتر کام کو کرے ۔ ‘‘ چُنانچِہ میں  تمہیں  400دِرہم دوں  گا۔   (صَحیح مُسلِم ص۸۹۹ حدیث۱۶۵۱)

بہتر کام کیلئے قَسَم توڑنا جائز ہے مگر کَفّارہ دینا ہو گا

 

Index