قسم کے بارے میں مدنی پھول

سب سے پہلے جھوٹی قَسم شیطان نے کھائی

             حضرتِ  سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردُود ہوا تھا لہٰذا وہ  آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نقصان پہنچانے کی تاک میں  رہا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنےحضراتِ سیِّدَینا آدم و حَوّا عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے فرمایا کہ جنّت میں  رہو اور جہاں  دل کرے بے رَوک ٹَوک کھاؤاَلبتَّہ اِس ’’ دَرَخت  ‘‘ کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے کسی طرح حضراتِ سیِّدَینا آدم و حَوّاعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس پہنچ کر کہا کہ میں  تمہیں  ’’ شَجَرِخُلد ‘‘ بتادوں  ،  حضرتِ سیِّدُنا آدمصَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے منع فرمایا توشیطان نے قسم کھائی کہ میں  تمہارا خیر خواہ  (یعنی بھلائی چاہنے والا) ہوں۔ اِنہیں  خیال ہوا کہ اللّٰہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے!  یہ سوچ کر حضرتِ سیِّدَتُنا حوّا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اِس میں  سے کچھ کھایا پھر حضرت سیِّدُناآدم صَفِیُّ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیا انہوں  نے بھی کھا لیا۔ (مُلَخَّص ازتفسیرعبد الرّزاق ج۲ص۷۶)  جیسا کہ پارہ 8 سُوْرَۃُ الْاَعْرَافْکی آیت20 اور 21 میں  ارشاد ہوتا ہے:

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ (۲۰) وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ (۲۱)

 ترجَمۂ کنزالایمان: پھر شیطان نے ان کے جی میں  خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شَرم کی چیزیں  جو ان سے چُھپی تھیں  اور بولا:  تمہیں  تمہارے ربّ نے اِس پیڑ سے اِسی لئے مَنع فرمایا ہے کہ کہیں  تم دو فِرِشتے ہوجاؤ یا ہمیشہ جینے والے اور ان سے قَسَمکھائی کہ میں  تم دونوں  کا خیر خواہ ہوں  ۔

          صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِیتفسیر خَزائنُ العِرفانمیں  لکھتے ہیں : معنٰی یہ ہیں  کہ اِبلیس مَلعُون نے جُھوٹی قسم کھا کر حضرتِ ( سیِّدُنا)  آدم  (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹی قسم کھانے والا اِبلیس ہی ہے،  حضر تِ آدم  (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)  کو گُمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم کھا کرجُھوٹ بول سکتا ہے ، اس لئے آپ نے اُس کی بات کا اِعتبار کیا ۔

کسی کاحق مارنے کے لئے جھوٹی قسم کھانے والا جہنَّمی ہے

          رسولِ کریم،  رء ُوفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عظیم ہے:  جو قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مار لےاللہ عَزَّ وَجَلَّاُس کے لئے جہنَّم واجِب کر دیتا اور اُس پر جنّت حرام فرما دیتا ہے ۔ عَرض کی گئی یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاگرچِہ وہ تھوڑی سی چیز ہی ہو؟ارشاد فرمایا:  ’’ اگرچِہ پِیلُو کی شاخ ہی ہو۔ ‘‘  (مُسلِم  ص۸۲ حدیث ۲۱۸۔  (۱۳۷)  )   پِیلُوایک دَرَخْت ہے جس کی شاخ اور جڑ سے مِسواک بناتے ہیں ۔

جھوٹی قَسَم کھانے والے کے حشر میں  ہاتھ پاؤں  کٹے ہوئے ہوں  گے

            ایک حَضرَمی (یعنی مُلکِ یَمَن کے شہر   ’’ حَضْرَمَوت ‘‘ کے باشندے)  اور ایک کِندی  (یعنی قبیلۂ کِنْدَہ سے وابَستہ ایک شخص)  نے مدینے کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہِ انور میں یَمَن کی ایک زمین کے مُتعلِّق اپنا جھگڑا پیش کیا،  حَضرَمی نے عَرض کی:  ’’ یارسول اللّٰہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!  میری زمین اِس کے باپ نے چھین لی تھی ،  اب وہ اِس کے قبضے میں  ہے۔ ‘‘ تو نبیِّ مُکَرَّم،  نُورِ مُجسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا :  ’’ کیا تمہارے پاس کوئی گواہی ہے؟ ‘‘ عرض کی:   ’’  نہیں ،  لیکن میں  اِس سے قسم لوں گاکہ اللّٰہ  کی قسم کھا کر کہے کہ وہ نہیں  جانتا کہ وہ میری زمین ہے جو اس کے باپ نے غَصَب کر لی تھی۔ ‘‘ کِندی قسم کھانے کے لئے تیّار ہو گیا تو رسولِ اکرم،  شَہَنشاہ ِ آدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:   ’’  جو  (جھوٹی)  قسم کھا کر کسی کا مال دبائے گا وہ بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّمیں  اس حالت میں  پیش ہو گا کہ اس کے ہاتھ پاؤں  کٹے ہوئے ہوں  گے۔ ‘‘ یہ سن کر کِندی نے کہہ دیا کہ یہ زمین اُسی (یعنی حَضرمی)  کی ہے۔  (سُنَنِ ابوداوٗدج۳ص۲۹۸حدیث۳۲۴۴)  

            مُفَسِّرِشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں  :  سُبْحٰنَ اللہِ! یہ ہے اثر اُس زَبانِ فیض تَرجُمان کا کہ دو کلمات میں  اُس  (کِندی)  کے دل کا حال بدل گیا اور سچّی بات کہہ کر زمین سے لا دعویٰ ہوگیا۔  (مراۃُ المناجیح ج۵ ص۴۰۳)

سات زمینوں  کا ہار

             رِشوتوں  کے ذَرِیعے دوسروں  کی جگہوں پر قبضہ کر کے عمارتیں  بنانے والوں ،  لوگوں  کی طرف سے ٹھیکے پر ملی ہوئی زَرعی زمینیں  دبالینے والے کِسانوں ،  وَڈَیروں  اور خائِن زمین داروں کو گھبراکر جھٹ پٹ توبہ کرلینی چاہئے اور جن جن کے حُقُوق دبائے ہیں  وہ فوراً ادا کردینے چاہئیں  کہ ’’  مسلم شریف ‘‘ میں  سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عبرت نشان ہے:  ’’ جو شخص کسی کی بالِشت بھر زمین ناحق طور پر لے گا تُو اُسے قِیامت کے روز سات زمینوں  کا طَوق (یعنی ہار)  پہنایا جائے گا ۔ ‘‘             (صَحیح مُسلِم ص۸۶۹ حدیث ۱۶۱۰ )

شارِعِ عام پر بِلاحاجتِ شَرعی راستہ مت گھیرئیے

          بعض لوگ شارِعِ عام پر بِلاحاجت راستہ گھیر لیتے ہیں  جن میں کئی صورتیں  لوگوں  کیلئے سخت تکلیف کا باعِث بنتی ہیں ،  مَثَلاً {۱}  بَقَرعید کے دنوں  میں  قربانی کے جانور بیچنے یا کرائے پر رکھنے یا ذَبح کرنے کیلئے بعض جگہ بِلاضرورت پوری پوری گلیاں  گھیر لیتے ہیں  {۲} راستے میں  تکلیف دِہ حد تک کچرا یا مَلبہ ڈالتے ،  تعمیرات کیلئے غیر ضَروری طور پربَجری اور سَریوں  کا ڈھیر لگا دیتے ہیں  اور یونہی تعمیرات کے بعد مہینوں  تک بچا ہوا سامان و ملبہ پڑا رہتا ہے {۳}  شادی و غمی کی تقریبوں  ،  نیازوں  وغیرہ کے موقَعَوں  پر گلیوں  میں دیگیں  پکاتے ہیں  جن سے بعض اوقات زمین پر گڑھے پڑ جاتے ہیں  پھر ان میں  کیچڑ اورگندے پانی کے ذخیرے کے ذَرِیعے مچّھر پیدا ہوتے اور بیماریاں  پھیلتی ہیں  {۴} عام راستوں  میں  کُھدائی کروا دیتے ہیں  مگر ضَرورت پوری ہوجانے کے باوُجُود بھروا کر حسبِ سابِق ہموار نہیں  کرتے  {۵} رِہائش یاکاروبار کیلئے ناجائز قبضہ جما کر اِس طرح جگہ گھیر لیتے ہیں  کہ لوگوں  کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے ۔ ان

Index