قسم کے بارے میں مدنی پھول

غَلَطی سے قَسَم کھالی تو؟

           {2} غَلَطی سے قسم کھا بیٹھا مَثَلاً کہنا چاہتا تھا کہ پانی لاؤ یاپانی پیوں  گا اور زَبان سے نکل گیا کہ   ’’ خدا کی قسم پانی نہیں  پیوں  گا ‘‘ تویہ بھی قسم ہے اگر توڑے گا کفَّارہ دینا ہوگا۔  (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۰ )

 {3}  قسم توڑنا اختیار سے ہو یا دوسرے کے مجبور کرنے سے،  قَصداً  (یعنی جان بوجھ کر ) ہو یا بھول چوک سے ہر صورت میں  کَفّارہ ہے بلکہ اگر بیہوشی یا جُنُون میں  قسم توڑنا ہوا جب بھی کفَّارہ واجِب ہے جب کہ ہوش میں  قسم کھائی ہواور اگر بے ہوشی یا جُنُون (یعنی پاگل پن)  میں  قسم کھائی تو قسم نہیں  کہ عاقل ہونا شَرط ہے اور یہ عاقل نہیں ۔ (تَبیِینُ الحقائق ج۳ ص ۴۲۳ )  

ایسے الفاظ جن سے قَسَم نہیں  ہوتی

           {4}   یہ الفاظ  قسم نہیں  اگرچِہ ان کے بولنے سے گنہگار ہوگا جبکہ اپنی بات میں  جھوٹا ہے :  اگر ایسا کروں  تومجھ پر اللہ  (عَزَّ وَجَلَّ)  کا غَضَب ہو۔اُس کی لعنت ہو ۔اُس کا عذاب ہو۔ خُدا کا قہرٹوٹے۔ مجھ پر آسمان پھٹ پڑے۔ مجھے زمین نگل جائے۔ مجھ پر خدا کی مارہو۔ خدا کی پِھٹکارہو۔ رسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شَفاعت نہ ملے۔ مجھے خدا کا دیدار نہ نصیب ہو۔مرتے وقت کلمہ نہ نصیب ہو۔  (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۴)

قَسَم کی چار اَقسام

           {5} بعض قسمیں  ایسی ہیں  کہ اُن کا پورا کرنا ضَروری ہے،  مَثَلاً کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کابِغیر قسم (بھی)  کرنا ضَروری تھا یا گناہ سے بچنے کی  قسم کھائی (کہ گنا ہ سے بچنے کی قسم نہ بھی کھائیں  تب بھی گناہ سے بچنا ضَروری ہی ہے)  تو اس صورت میں  قسم سچّی کرنا ضَرورہے۔مَثَلاً  (کہا) خدا کی قسم ظُہرپڑھوں  گا یا چوری یا زِنا نہ کروں  گا۔  (قسم کی)  دوسری  (قِسم )  وہ کہ اُس کا توڑنا ضَروری ہے مَثَلاًگناہ کرنے یا فرائض و واجِبات  (پورے)  نہ کرنے کی  قسم کھائی،  جیسے  قسم کھائی کہ نَماز نہ پڑھوں  گا یا چوری کروں  گا یا ماں  باپ سے کلام  (یعنی بات چیت)  نہ کروں  گا تو قسم توڑ دے۔ تیسری وہ کہ اُس کا توڑنا مُستَحب ہے مَثَلاً ایسے اَمر  (یعنی مُعاملے یاکام)  کی قسم کھائی کہ اُس کے غیر (یعنی علاوہ)  میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔ چوتھی وہ کہ مُباح کی  قسم کھائی یعنی (جس کا)  کرنا اور نہ کرنا دونوں  یکساں  ہے اس میں   قسم کا باقی رکھنا افضل ہے۔          (المبسوط للسرخسی ج۴ ص ۱۳۳ )

 {6}  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے جتنے نام ہیں  اُن میں  سے جس نام کے ساتھ  قسم کھائے گا قسم ہوجائے گی خواہ بول چال میں  اُس نام کے ساتھ  قسم کھاتے ہوں  یانہیں ۔مَثَلاً اللہ  (عَزَّ وَجَلَّ)  کی  قسم،  خدا کی  قسم،  رحمن کی  قسم،  رحیم کی  قسم،   پَروَردَگار کی  قسم۔ یوہیں  خدا کی جس صِفَت کی قسمکھائی جاتی ہو اُس کی قسم کھائی،  ہوگئی مَثَلاًخدا کی عزّت وجلال کی  قسم،  اُس کی کِبریائی (عَظَمت، بڑائی) کی  قسم،  اُس کی بُزُرگی یا بڑائی کی  قسم ،  اُس کی عَظَمت کی  قسم،  اُس کی قدرت و قوَّت کی  قسم،  قرآن کی  قسم،  کلامُ اﷲ  کی قسم۔   (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۲)

  {7} ان الفاظ سے بھی  قسم ہوجاتی ہے : حَلف  کرتا ہوں ۔  قسم کھاتا ہوں ۔ میں  شہادت دیتا ہوں ۔ خداکو گواہ کرکے کہتا ہوں۔ مجھ پر  قسم ہے۔لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں  یہ کام نہ کروں  گا۔ (اَیضاً)

 ایسی قسم جن کے توڑنے میں  کُفْر کااندیشہ ہے

           {8} اگر یہ کام کرے یا کیا ہو تو یہودی ہے یا نصرانی یا کافر یا کافروں  کا شریک۔مرتے وقت ایمان نصیب نہ ہو۔ بے ایمان مرے۔ کافر ہوکرمرے۔اور یہ الفاظ بَہُت سخت ہیں  کہ اگر جھوٹی  قسم کھائی یا   قسم توڑ دی تو بعض صورت میں  کافرہوجائے گا۔ جو شخص اِس قِسم کی جھوٹی قَسَمکھائے اُس کی نسبت حدیث میں  فرمایا:  ’’ وہ وَیسا ہی ہے جیسا اُس نے کہا۔ ‘‘ یعنی یہودی ہونے کی  قسم کھائی تو یہودی ہوگیا۔ یونہی اگر کہا:    ’’ خدا جانتاہے کہ میں  نے ایسا نہیں  کیا ہے۔  ‘‘ اور یہ بات اُس نے جھوٹ کہی ہے تو اکثرعُلَما کے نزدیک کافرہے۔

  (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۱ )

کسی چیز کو اپنے اوپرحرام کر لینا

          {9} جو شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے مَثَلاً کہے کہ فُلاں  چیز مجھ پر حرام ہے تو اِس کہدینے سے وہ شے حرام نہیں  ہوگی کہ اللہ  (عَزَّ وَجَلَّ)  نے جس چیز کو حلال کیا اُسے کون حرام کرسکے ؟مگر (جس چیز کو اپنے اُوپر حرام کیا) اُس کے بَرَتنے  (بَ۔رَت۔نے یعنی استِعمال کرنے ) سے کفّارہ لازِم آئیگا یعنی یہ بھی قسم ہے۔  (تَبیِینُ الحقائق ج ۳ص ۴۳۶)  تجھ سے بات کرنا حرام ہے یہ (بھی)  یَمین (یَ۔مِین۔یعنی قسم) ہے۔ بات کرے گا تو کفّارہ لازِم ہوگا۔    (فتاوٰی عالمگیریج ۲ ص ۵۸)

غیرِ خُدا کی قَسَم ’’  قَسَم ‘‘ نہیں

          {10} غیرِخدا کی قسم،    ’’ قسم  ‘‘ نہیں  مَثَلاً تمہاری قسم۔ اپنی قسم۔ تمہاری جان کی قسم ۔اپنی جان کی قسم۔ تمہارے سرکی قسم۔ اپنے سرکی قسم۔ آنکھوں  کی قسم۔ جوانی کی قسم۔ ماں باپ کی قسم۔ اولادکی قسم۔ مذہب کی قسم۔ دین کی قسم۔ علم کی قسم۔ کعبے کی قسم۔ عرشِ اِلٰہی کی قسم۔ رَسُولُ اللہ کی قسم۔            (ایضاًص۵۱)

 {11}  خدا ورسول کی قسم یہ کام نہ کروں  گا یہ قسم نہیں ۔  (ایضاًص۵۷، ۵۸)

 {12}  اگر یہ کام کروں  تو کافِروں  سے بدتر ہوجاؤں   (کہا) تو (یہ)  قسم ہے اور اگر کہا کہ یہ کام کرے  (یعنی کروں ) تو کافر کو اِس (یعنی مجھ)  پرشَرَف  ہو (یعنی فضیلت ہو)  تو قسم نہیں ۔

(ایضاًص۵۸)

دوسرے کے قَسَم دلانے سے قَسَم نہیں  ہوتی

 {13}  دوسرے کے قسم دِلانے سے قسم نہیں  ہوتی مَثَلاً کہا : تمہیں  خدا کی قسم یہ کام کردو۔ تو اِس کہنے سے (جس سے کہا)  اُس پر قسم نہ ہوئی یعنی نہ کرنے سے کفّارہ لازِم نہیں ۔ ایک شخص کسی کے پاس گیا اُس نے اٹھنا چاہا اُس نے کہا : خداکی  قسم نہ اُٹھنا اور (جس سے کہا)  وہ کھڑا ہوگیا تواُس قسم کھانے والے پر کفّارہ نہیں ۔   (ایضاًص۵۹۔۶۰)

 

Index