قسم کے بارے میں مدنی پھول

{14} یہاں  ایک قاعدہ یاد رکھنا چاہیے جس کا قسم میں  ہرجگہ لحاظ ضرور ہے وہ یہ کہ قسم کے تمام الفاظ سے وہ معنٰے لیے جائیں  گے جن میں  اہلِ عُرف استعمال کرتے ہوں مَثَلاً کسی نے  قسم کھائی کہ کسی مکان میں  نہیں  جائیگا اور مسجد میں  یا کعبۂ معظمہ میں  گیا تو قسم نہیں  ٹوٹی اگرچہ یہ بھی مکان ہیں ،  یوں  ہی حمّام میں  جانے سے بھی  قسم نہیں  ٹوٹے گی۔  (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص ۶۸)

قَسَم میں  نیّت اور غَرَض کا اِِعتبار نہیں

           {15} قسم میں  الفاظ کا لحاظ ہوگا ، اِس کا لحاظ نہ ہوگا کہ اِس قسم سے غَرَض کیا ہے یعنی ان لفظوں  کے بول چال میں  جو معنٰے ہیں  وہ مُراد لیے جائیں گے قسم کھانے والے کی نیّت اور مقصد کا اعتِبار نہ ہوگا مَثَلاً قسم کھائی کہ   ’’ فُلاں  کے لیے ایک پیسے کی کوئی چیز نہیں  خریدوں  گا  ‘‘ اور ایک رُوپے کی خریدی تو قسم نہیں  ٹوٹی حالانکہ اِس کلام سے مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ نہ پیسے کی خریدوں  گا نہ رُوپے کی مگرچُونکہ لَفظ سے یہ نہیں  سمجھا جاتا لہٰذا اس کا اعتبار نہیں  یا قسم کھائی کہ   ’’ دروازے سے باہَرنہ جاؤں  گا ‘‘ اور دیوار کُود کریا سیڑھی لگا کر باہَر چلاگیا تو قسم نہیں  ٹوٹی اگرچِہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ گھرسے باہَر نہ جاؤں  گا۔  (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص۵۵۰)

اِس ضِمن میں   حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی ایک حکایت سنئے اور جھومئے چُنانچِہ

انڈا نہ کھانے کی قَسَم کھا لی

            ایک شخص نے قسم کھائی کہ انڈا نہ کھاؤں  گا اور پھر یہ قسم کھائی کہ جو چیز فُلاں  شخص کی جیب میں  ہے وہ ضَرور کھاؤں گا۔ اب دیکھا تواُس کی جیب میں  انڈا ہی تھا۔کروڑوں  حنفیوں  کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم سے پوچھا گیا تو فرمایا:  اُس انڈے کو کسی مُرغی کے نیچے رکھ دے اور جب چُوزہ نکل آئے تو اُسے بُھون کر کھالے یا شوربے میں  پکا کر شوربے سمیت کھالے۔ (اس صورت میں  قَسَم پوری ہو جا ئے گی)  (الخیرات الحسان ص۱۸۵)  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔           

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

قَسَم کے بعض الفاظ

          اگر وَاللّٰہ بِاللّٰہ تَاللّٰہ کہا تو تین قسمیں  ہوئیں  ۔ بخدا ۔قسم سے ۔بَحلفِ شَرعی کہتا ہوں ۔ اللّٰہ کو حاضِر ناظر جان کر کہتا ہوں ۔ اللّٰہ کو سمیع بصیر جا ن کر کہتا ہوں ۔ BY GODیہ سب قسم کے الفاظ ہیں ۔   ’’ اللّٰہ کو حاضِر ناظر جان کر کہتا ہوں  ‘‘ اِس طرح کہنے سے قسم تو ہو جائے گی مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّکو حاضِر ناظر کہنا ممنوع ہے۔

سرکارِمد ینہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَسَم کے الفاظ

            نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاکثر ’’  وَمُقَلِّبِ القُلُوب ‘‘ (یعنی قسم ہے دلوں  کے بدلنے والے کی) یا  ’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدہٖ ‘‘  (یعنی قسم اُس کی جس کے دستِ قدرت میں  میری جان ہے) کے الفاظ کے ساتھ قسم ارشاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عمر  (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)  سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَزیادہ تر جو قسم ارشاد فرماتے تھے وہ یہ تھی: وَمُقَلِّبِ القُلُوب یعنی قسم ہے دلوں  کو بدلنے والے کی ۔  ( بُخاری  ج۴ ص۲۷۸ حدیث۶۶۱۷)

حُضُور صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی قَسَم کھانا

          دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561صَفحات پر مشتمل کتاب ’’  ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ کے صَفْحَہ 528پر ہے کہ میرے آقااعلیٰ حضرت،  اِمامِ اَہلسنّت ،  مولاناشاہ اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنسے عرض کی گئی:  حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)  کی قسم کھا کر خِلَا ف کرنے سے کفَّارہ لازم آئے گا یا نہیں ؟ تو فرمایا:  نہیں ۔  (فتاوٰی عالمگیریج۲ص۵۱)

باپ کی قَسَم کھانا کیسا؟

            اللہ عَزَّ وَجَلَّکے مَحبوب ،  دانائے غُیُوب،  مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکوسُواری پر چلتے ہوئے مُلاحَظہ فرمایاجبکہ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے باپ کی قسم کھارہے تھے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:  ’’  اللہ عَزَّ وَجَلَّتم کو باپ کی قسم کھانے سے مَنع کرتا ہے،  جوشَخص قَسَم کھائے تواللہ عَزَّ وَجَلَّکی قَسَم کھائے یا چُپ رہے۔ ‘‘  (صَحیح بُخاری  ج۴ص۲۸۶حدیث ۶۶۴۶)

            مُفَسِّرِشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں  : یعنی غیرِ خدا کی قسم کھانے سے مَنع فرمایا گیا۔ چُونکہ اہلِ عَرَب عُمُوماً باپ دادوں  کی قسم کھاتے تھے اِس لیے اِسی کا ذِکر ہوا،  غیرِ خدا کی قسم کھانا مکروہ ہے ،   (مرقاۃ  ج۶ص۵۷۹) اللہ عَزَّ وَجَلَّسے مُراد ربّ تَعَالٰی کے ذاتی و صِفاتی نام ہیں  لہٰذا قرآن شریف کی قسم کھانا جائز ہے کہ قرآن شریف کلامُ اللہ کا نام ہے اورکلام اللہ صِفَتِ الٰہی ہے،  قرآنِ مجید میں  زَمانہ،  اِنجیر،  زَیتون وغیرہ کی قسمیں  ارشاد ہوئیں  وہ شَرعی قسمیں  نہیں  نیز یہ اَحکام ہم پر جاری ہیں  نہ کہ ربّ تَعَالٰی پر ۔  (مراٰۃ  ج ۵ ص ۱۹۴، ۱۹۵)

قسم میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو قَسَم ہوگی یا نہیں ؟

            فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :  قسم میں  اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو اُس کا پورا کرنا واجِب نہیں  بشرطیکہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا لفظ اِس کلام سیمُتَّصِل  (یعنی ملا ہوا)  ہو اوراگر فاصِلہ ہوگیا مَثَلاً قسم کھا کر چُپ ہوگیا یا درمیان میں  کچھ اور بات کی پھر اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو قَسَم باطِل نہ ہوئی۔  (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج ۵ ص ۵۴۸ )  حضرتِ سیِّدُناعبد اللّٰہ بن عمر

Index