ولادتِ باسَعاد ت

شیخِ طریقت، امیرِاَہلسنّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد اِلیاس عطّارقادِری رَضَوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی ولادتِ با سعادت ۲۶ رَمَضانُ المبارَک ۱۳۶۹ ھ مطابق 12جولائی 1950ء بروزبدھ پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ (کراچی) کے علاقہ بمبئی بازارکھارا در میں وقتِ مغرب سے کچھ دیر قبل ہوئی ۔



ولدیت

حاجی عبدالرَحمن قادِری بن عبدالرحیم


آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ْ کا اسمِ گرامی محمد ہے ۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْْ کا عُرفی نام الیاس ہے ۔حضور سیِّدُنا غوث الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ الْاَکْرَمْ کے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہونے کی نسبت سے آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ قادِری، امامِ اہلسنّت مجدّدِ دین وملت اِمام احمدرضاخان عَلَیْہ ِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ جو امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے دادا پیر بھی ہیں )کی تحقیقاتِ انیقہ پر مکمل کاربندہونے اور والہانہ عقیدت ومحبت کی بنا پررَضَوی،اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت، قطبِ مدینہ، حضرت مولانا ضیاء الدِّین مدنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ الْغَنِیْ کے مُرید ہونے کی نسبت سےضیائی کہلاتے ہیں۔اعتقاد کے اعتبار سے سچے پکےسُنّی اورفقہ میں آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ائمہ اربعہ (یعنی امامِ اعظم ابوحنیفہ ، امام شافعی،امام مالک ،امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِمْ ) میں سےامام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے پیروکار ہیں اس نسبت سےحنفی ہیں۔


کُنْیَتْ وتَخَلُّصْ:

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی کُنْیَت ْابو بلال اور تَخَلُّصْ عطّاؔرہے ۔


میں عطّاؔر کیسے بنا؟

شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک مَدَنی مذاکرےمیں جو کچھ ارشاد فرمایا اُس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:’’ میں عطّاؔر کیسے بنا ؟ یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔میں اُن دنوں میں نُور مسجد( کاغذی بازار باب المدینہ کراچی )میں اِمامت کرتا تھا ۔ دعوت اسلامی کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔مجھے شاعری کا شوق اس وقت بھی تھا میں نے غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کی بارگاہ میں ایک سلام لکھا تھا؛

سلطان اولیاء کو ہمارا سلام ہو

جیلاں کے پیشوا کو ہمارا سلام ہو


پھرکسی طرح میں نے غالباً30 روپے میں ایک ہزار پرچے خوبصورت(فریم میں لگائے جانے والے) چھپوائے تاکہ انہیں مفت بانٹ سکوں۔ ایک بار میرے پاس ایک شیوڈنوجوان مجھے ڈھونڈتا ہوا نور مسجد آیا اور مجھ سے یہ پرچہ مانگا ۔میں نے اسے اپنے مختصر سے حجرے میں بٹھایا اور اس پر انفرادی کوشش بھی کی ۔اس دوران پتا چلا کہ اُس کا عطر کا ہول سیل کا کاروبار ہے ۔مجھے عطر لگانے کا بہت شوق تھا میں نے اُسے اپنے اِس شوق کے بارے میں بتایا تو اُس نے مجھے اپنی دکان کا پتا سمجھایا ۔میں اُس کی دکان پر عطر خریدنے گیا تو مجھے بہت سستا محسوس ہو ا ۔ میں نے کچھ خالی شیشیاں خریدیں اور ہول سیل میں عطر خرید کروہ شیشیاں بھریں اور عطربیچنا شروع کردیا ۔ عطر کے کام کی نسبت سے میں نے اپنا تخلص عطّاؔررکھا،یوں میں عطّاؔر بن گیا۔اس میں ایک بہت بڑے بزر گ (جو’’تذکرۃ الاولیاء‘‘کے مؤلف بھی ہیں ) حضرت سیدنا شیخ فرید الدین عطّار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارْ کی نسبت بھی ہے ۔ یہ تخلص اتنا مشہور ہوا کہ لوگ مجھے الیاس کم اور عطّاؔر زیادہ کہتے ہیں۔ (مدنی مذاکرہ، نمبر 26)


عالمِ نبیل،فاضل جلیل،عاشق رسول مقبول ،یادگاراسلاف،نمونہ اسلاف،مبلغ اسلام رھبرقوم،عاشق مدینہ،فدائےمدینہ،فدائےغوث الوریٰ،فدائے سیدنا امام احمد رضا( رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ)صاحب تقویٰ، مسلک اعلیٰ حضرت رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ کےعظیم ناشرومبلغ وپاسبان ترجمان،صاحب المجدوالجاہ،فیض رساں،عمیم الجودوالاحسان،امیر دعوت اسلامی،امیر اھل سنت،فخر اھل سنت،نائب غوث اعظم،نائب اعلیٰ حضرت (رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ )پیکر سنت،حامی سنت،ماحی بدعت،شیخ وقت،پیر طریقت،امیرملت،وغیرھا۔

میمن گھرانا:

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ایک بار دوران مدنی مذاکرہ خودارشادفرمایا ’’ ہند (انڈیا) میں ہندوقوم’’لوہانہ‘‘کی طرف غوث پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ کی اولاد میں سے ایک بُزُرگ سیِّدنا یوسُفُ الدین عَلَیْہِ رَ حْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن تشریف لائے اور لَوہانہ قوم میں نیکی کی دعوت کی دُھومیں مچائیں ، جس کی بَرَکت سے ہماری برادری کے لوگ مسلمان ہوئے اور ’’مُومِن‘‘لقب پایا،جو بعد میں مومِن سے تبدیل ہوکر’’ میمن‘‘ہو گیا۔) رسالہ ابتدائی حالات،ص۱)