بیعت  وارادت



امامِ اہلِسنّت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہ ِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ سے بے حد  عقیدت  کی بنا پر  امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کوآپ علیہ رحمۃ الرحمن کے سلسلے میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہوا ۔جیسا کہ  امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ خود لکھتے ہیں :’’(مرید ہونے کے لئے) ایک ہی ’’ہستی‘‘ مرکز توجہ بنی ،گومشائخِ


اہل ِسنت کی کمی تھی نہ ہے مگر

؎  پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا


          اس مقدس ہستی کا دامن تھام کر ایک ہی واسطے سے  اعلیٰ حضرت عَلَیْہ ِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ سے نسبت ہوجاتی تھی اور اس ’’ہستی‘‘ میں  ایک کشش  یہ بھی تھی کہ براہِ راست  گنبدِ خضرا  کا سایہ اُس پر پڑ رہا تھا۔اس ’’مقدس ہستی‘‘ سے میری مراد حضرت شَیخُ الفضیلت آفتابِ رضویت ضیاءُ الملت، مقتدائے اہلسنّت، مُرید و خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت،پیرِ طریقت، رہبرِ شرِیعت ، شَیْخُ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ، میزبانِ مہمانانِ مدینہ ، قطبِ مدینہ ،حضرت علامہ  مولٰینا ضیاء الدین اَحمد مَدَنی قادِری رَضَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُاللہِ لْقَوِیْ کی ذات گرامی (ہے) ۔


ضیاء پیر ومرشد مِرے رہنما ہیں

سُرورِ دل وجاں مِرے دل رُبا ہیں

منور کریں قلبِ عطّارؔ کو بھی

شہا! آپ دین مبیں کی ضِیا ہیں

بیعت وارشاد:


           امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ خلافت ووکالت ملنے کے باوجود ایک عرصے تک برائے  تواضع و انکساری  کسی کو اپنا مرید  نہیں بناتے تھے بلکہ اپنے ذریعے سے پیر ومرشِدکا ہی مرید بناتے تھے ۔پیر و رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے وِصال کے بعدآپ نے بیعت کرنا شروع فرمایا ،تو لوگ آپ کے ذریعے سلسلہ عالیہ قادِریہ رَضَویہ عطاریہ میں داخل ہوکر  عطاری ؔ بننے لگے۔پھربعد میں اَکابرین کے طریقے کو اپناتے ہوئے بڑے بڑے سنّتوں بھرے اجتماعات میں بھی آپ نے  اجتماعی بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا جیسا کہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت مصطفی رضا خان عَلَیْہ ِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ بھی اجتماعی بیعت فرماتے تھے۔


مریدوں پر شفقت :


            امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو سالہاسال سے کثرت ِ پیشاب کا عارضہ لاحق تھا۔ بالآخردسمبر 2002ء میں ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا جس کے لئے آپ ہی کے مطالبے پر نمازِ عشاء کے بعد کا وقت طے کیا گیا تاکہ آپ کی کوئی  نماز قضانہ ہونے  پائے ۔ آپریشن ہوجانے کے بعد نیم بے ہوشی کے عالم میں درد سے کراہنے یا چلانے کی بجائے آپ نے  وقتاً فوقتاً  جن کلمات کی بار بار تکرار کی وہ یہ تھے:

          ’’ سب لوگ گواہ ہوجاؤمیں مسلمان ہوں ،یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں مسلمان ہوں ، میں تیرا حقیر بندہ ہوں ،… یارسول اللہ  محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میں آپ کا ادنیٰ غلام ہوں ، … اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّ!  میں  غوث الاعظم  ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کا غلام  ہوں ،…اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میرے  گناہوں  کو بخش دے،… اے   اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میری  مغفرت  فرما،… اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میرے  ماں باپ  کی مغفرت فرما،…اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میرے  بھائی بہنوں  کی مغفرت فرما،… اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میرے تمام مریدوں  کی  مغفرت  فرما،… اے   اللہ عَزَّوَجَلَّ ! (مجلس شورٰی کے مرحوم نگران)  حاجی مشتاق  کی مغفرت فرما،اے   اللہ عَزَّوَجَلَّ !تمام  دعوت ِ اسلامی والوں اور والیوں  کی مغفرت فرما،… اے   اللہ عَزَّوَجَلَّ!  محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  کی ساری امت  کی مغفرت فرما۔… 

          دیکھا آپ نے کہ  امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ اپنے  مُریدوں  سے کس قدر  محبت  فرماتے ہیں کہ نیم بے ہوشی میں بھی وہ اپنے مریدوں کیلئے مغفِرت کی دعائیں مانگتے رہے یہاں تک کہ بقر عید(۱۴۲۳ھ) میں انہوں نے ایصالِ ثواب کیلئے ایک قربانی اپنے غریب مُریدوں کی طرف سے اورایک قربانی اپنے فوت شدہ مُریدوں کی طرف سے کی۔اس کے علاوہ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ اپنے تمام مریدوں کا ایمان بارگاہِ رسالت محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں حفاظت کے لئے پیش کردیتے ہیں۔

(تعارف امیر اہلسنت،ص۷۳)