آپ کے آباواجداد

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے آباواَجدادہند کے گاؤں ’’کُتیانہ‘‘(جُوناگڑھ)میں مقیم تھے۔ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے دادا جان ’’عبدالرحیم‘‘ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَرِیْم کی نیک نامی اورپارسائی پورے ’’کتیانہ ‘‘ میں مشہورتھی اورہر سُو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے حسنِ اخلاق کے چرچے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ انتہائی سادہ طبیعت اور مُنْکَسِرُالْمِزاج تھے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے مرحوم نانا جان کا نام حاجی محمد ہاشِم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ اور نانی جان کانام حلیمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِا تھا۔



والد ین کریمین

امیرِ اَہلسنت ّدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے والدِبُزرگوارحاجی عبدالرَحمن قادِری عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُاللہ ِ الْھَادِیْ پرہیزگار انسان تھے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ !سنّت کے مطابق ایک مٹھی داڑھی تھی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ اکثر نگاہیں نیچی رکھ کر چلا کرتے تھے اور انہیں بہت سی اَحادیثِ مبارَکہ زبانی یاد تھیں۔ دُنیوی مال ودولت جمع کرنے کا لالچ نہیں تھا۔ امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی والدۂ ماجدہ امینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِا ایک نیک اور پرہیزگار خاتون تھیں۔


والد ین کی ہجرت

جب پاکستان معرضِ وُجود میں آیا توغیر مسلموں نے مسلمانوں کو خوب لُوٹااور بے شمار مسلمانوں کو نہایت ہی بے دردی و سفّاکی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ ان نامُساعد حالات میں جُوں توں جان بچا کر امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے والدین ماجدین ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے اور بابُ الْمدینہ(کراچی) میں قیام پذیرہوئے ۔یہاں والدِ محترم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ نے حُصولِ مُعاش کیلئے ایک فرْم میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس فرْم کی ایک شاخ’’سیلون‘‘کےدارالخلافہ’’کولمبو‘‘ میں بھی تھی،کچھ ہی عرصے کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کا تبادلہ ’’کولمبو‘‘ کردیا گیا۔


والد محترم کی کَرامت

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے والدِ بُزُرگوار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْغَفَّارْ ْسلسلۂ عالیہ قادِریہ کے صاحبِ کرامت بُزُرگ تھے۔1979ء میں جب شَیخِ طریقت امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ’’کولمبو‘‘ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں کو والدصاحب سے بَہُت متأثر پایا۔کیونکہ انہوں نے وہاں کی عالیشان حَنَفی میمن مسجد کے انتظامات سنبھالے تھے اور اس مسجد کی کافی خدمت بھی کی تھی۔ وہاں پر امام صاحب کی غیر حاضری میں نمازیں بھی پڑھادیا کرتے تھے ۔کولمبو میں قیام کے دوران امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے خالو نے دورانِ گفتگو آپ کو بتایا کہ ’’آپ کے والد صاحب بہت نیک آدمی تھے ،غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کےبہت چاہنے والے اور قصیدۂ غوثیہ کے عامل تھے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب کبھی چار پائی پر بیٹھ کر آپ کے والد صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ ’’قصیدئہ غوثیہ‘ ‘پڑھتے تو ان کی چار پائی زمین سے بلند ہو جاتی تھی۔‘‘(سُبْحَانَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ)


والدِ بُزرگوار کا وِصال

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی عمرڈیڑھ یا دو برس کی تھی جب کہ آپ کے والدبُزرگوار کو مدینے شریف کا بُلاوا آیا۔ چنانچہ ۱۳۷۰ ھمیں انہوں نے سفرِ حج اختیار کیا۔والد صاحب کے سوئے عَرَب روانہ ہونے کے وقت امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو بخار تھا اور آپ کو ایک کمبل میں لپیٹ کر والد ِ مرحوم کو اَلوداع کرنے کے لئے ائیرپورٹ لایا گیا ۔ اَیّامِ حج میں مِنٰی شریف میں سخت لوُ (یعنی گرم ہوا) چلی تھی جس کے نتیجے میں بے شمار حجاج کرام شہید اوربہت سے لاپتہ ہوگئے ۔ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے والدِ محترم بھی لاپتہ ہونے والوں میں شامل تھے،جو تلاش بسیا ر کے بعدبھی نہ مل سکے۔اُن کے ایک رفیق سفر کا بیان ہے کہ اُن دنوں شیر بیشۂ اہلسنّت ،حضرت ِ مولاناحشمت علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃ اللہ الْمَنَّانْ بھی حج کیلئے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے اُن کی خدمت میں حاضر ہوکرمدعا عرض کیا اور عرض کی کہ’’آپ دعا کردیں کہ حاجی عبدالرحمن ہمیں مل جائیں۔ ‘‘انہوں نے دعا کی اور فرمایا کہ مل جائیں گے( اِنْ شَاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ) ۔ بالآخروہ ہمیں جدّہ شریف کے ایک ہسپتال میں سخت علالت کی حالت میں ملے۔ انہیں لُو لگ گئی تھی اور اِسی حالت میں وہ۱۴ذوالْحِجَّۃِ الْحَرام ۱۳۷۰ ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ (اِنَّا لِلّٰہِ واِنّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن)

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔


خوش نصیب حاجی

اَلْحَمدُلِلہِ !حاجی عبدالرحمن عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُ اللہ الْمَنَّانْ کس قدر خوش نصیب تھے کہ وہ سفرِ حج کے دوران اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔سفرِحجکے دوران انتقال کرجانے والے کے بارے میں رحمت ِ کونین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جو حج کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا قیامت تک اس کیلئے حج کا ثواب لکھاجائے گا اور جو عمرہ کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا اس کیلئے قیامت تک عمرے کا ثواب لکھاجائیگا اور جو جہاد میں گیا اور مرگیا اس کیلئے قیامت تک غازی کا ثواب لکھاجائیگا۔‘‘

(المعجم الاوسط،الحدیث ۵۳۲۱،ج۴ص۹۳،دار الفکر بیروت)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ،’’ جو اس راہ میں حج یا عمر ہ کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا اس کی پیشی نہیں ہوگی ،نہ حساب ہوگا اس سے کہاجائے گا توجنت میں داخل ہوجا۔‘‘

(مسند ابی یعلیٰ الموصلی ،مسند عائشہ،الحدیث ۴۵۸۹،ج۴،ص۱۵۲،دار الکتب العلمیۃ بیروت

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند

سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگرکی ہے


والدِ بُزرگوار پَرسَرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا کرم

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی بڑی ہمشیرہ کا بیان ہے کہ اباجا ن عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُاللہ الْمَنَّانْ کے وِصال شریف کے بعد ایک نہایت ہی روح پَر وَر خواب دیکھا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ اباجا ن علیہ رحمۃ المنان ایک نہایت ہی نورانی چہرے والی بُزُرگ ہستی کے ساتھ تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے: ’’ بیٹی انہیں پہچانتی ہویہ ہمارے مدنی آقامیٹھے میٹھے مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہیں ‘‘۔ پھر شہنشاہ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے مجھ پر نہایت ہی شفقت کرتے ہوئے فرمایا :’’تم بَہُت خوش قسمت ہو‘‘۔

کیوں کریں بزمِ شبستانِ جِناں کی خواہش

جلوئہ یار جو شمعِ شبِ تنہائی ہو

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔


سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا دامنِ کرم

باب الاسلام سندھ کے ضلع ٹھٹھہ تحصیل شاہ بندر کے ایک پیرصاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ جو انتہائی منکسر المزاج اور صاحبِ تقویٰ بُزُرگ تھے۔ اُن کے قریبی مریدین کا کہنا ہے کہ ایک بار آپ نے ہمیں قریب بلا کر بتایا کہ رات میں سویا تو میری قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پیارے پیارے شہدسے بھی میٹھے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جلوہ فرما ہیں اور کسی خوش نصیب کو اپنے دامن میں بڑی محبت میں چھپا رکھاہے۔ میں نے عرض کی:’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ آپ کے دامن میں کونخوش نصیب ہیں ؟‘‘میری عرض سن کر پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لبِ مبارَک پر مسکراہٹ پھیل گئی۔لب ہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، رَحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے’’ یہ میرے دیوانے الیاس قادری کے والد ہیں۔ جو دینِ اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔‘‘

پیر صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کے دل میں امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ سے ملنے کا اشتیاق ہوامگر امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ ان دنوں ہند کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔ ا ُس کے بعد آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ کی وفات تک ظاہری ملاقات کا سلسلہ نہ بن سکا۔ اُن کے قریبی مریدین و محبین کا کہنا ہے کہ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ اسکے بعد سے مرید ہونے کی غرض سے آنے والوں کو یہ ہی ارشاد فرماتے کہ اب مرید بننا ہے تو جاکر امیرِ اَہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے ہی بنوپھر اصرار بڑھتا تو مرید بنا بھی لیتے مگر امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی عقیدت کے جام بھی ساتھ ضرور پیش فرماتے۔ جب امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے کسی مرید کو پاتے تو ان سے دعائیں کرواتے۔ ایک بار امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی عقیدت و محبت کے غلبہ میں مریدین کو فرمایا :’’میں تو خود’’ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کا فقیر ہوں۔‘‘


ننھاسا دل بھرآیا

امیرِاہلِسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک مرتبہ کچھ اس طرح سے بتایاکہ’’میرےبچپن کے دنوں میں ایک بار گھر کے برآمدے کی طرف جاتے ہوئے اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ’’سبھی بچے کسی نہ کسی کی طرف باپا، باپا کہہ کربڑھتے ہیں اور اس سے لپٹ جاتے ہیں پھر ان کے باپا انہیں گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں ، انہیں شیرینی دلاتے ہیں اور کبھی کبھی کھلونے بھی دلاتے ہیں … کاش ! ہمارے گھر میں بھی باپا ہوتے ، میں بھی ان سے لپٹتااوروہ مجھے پیار کرتے ۔‘‘ اس بے تاب آرزو کی وجہ سے میرا ننھاسا دل بھرآیا اورجگر صدمے سے چُور چُور ہوگیااور میں نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ میرے رونے کی آواز سن کر میری بڑی ہمشیرہ جلدی سے وہاں آئیں اور اپنے ننھے یتیم بھائی کو گود میں لیکر بہلانے لگیں۔


بڑے بھائی کا اِنتقا لِ پُرملال

والد ِمحترم کے انتقال کے بعد محترم عبدالغنی صاحب جو آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کے ایک ہی بھائی تھے اور عمْر میں آپ سے بڑے تھے ،وہ بھی حیدرآباد میں ایک ٹرین کے حادثہ میں سفرِ آخِرت اختیا رکر گئے۔ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک مَدَنی مذاکرہ میں اپنے بڑے بھائی جان کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا اُس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’والد صاحب جب میں ڈیڑھ دو سال کا تھا تو فوت ہوگئے تھے ۔ بڑے بھائی میرے والد کی جگہ تھے ۔ ہم لوگ مل کر کاروبار کرتے تھے۔اسی سلسلے میں میرے بھائی صاحب بنوں جایا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ بنوں گئے تو حیدر آبادریلوے اسٹیشن پر ایک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا ۔

مجھے بھائی نے سنبھالا تھا وہ بھی چلے گئے یوں میں میری بوڑھی والدہ اور دو بہنیں ، ہمارا یہ کنبہ رہ گیا ۔ گھر کا سارا بوجھ میرے اوپر آ گیا ۔میرے اندر صحیح معنوں میں مَدَنی انقلاب میرے بھائی کے انتقال کے بعد آیا،میرے دل کو بہت چوٹ لگی۔ میرے اندر خوف خدا عَزَّوَجَلَّ اور رِقت وسوز بہت پیدا ہوگیا۔ میں اسلامی بھائیوں کے ساتھ قبرستان جانے لگا ۔ہم وہاں بھائی کی قبر پر دیر تک بیٹھے رہتے ۔ اس دوران نعت خوانی ہوتی ،پھر میں نے موت کے عنوان پر بیان کرنا شروع کیا۔تحدیث نعمت کے لیے عرض کررہا ہوں کہ میں موت کے عنوان پر اَلْحَمْدُﷲِعَزَّوَجَلَّ اتنا پُر اثر بیان کرتا تھا کہ بعض اوقات اسلامی بھائی روتے روتے بے ہوش ہوجاتے تھے۔پھر دعا بھی کیا کرتا تھا ۔ اس طرح رقت انگیز بیان اور دُعا کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ پھر بڑھتے بڑھتے دعوتِ اسلامی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلا اجتماع گلزار حبیب مسجد (سولجر بازار باب المدینہ کراچی )میں ہوا۔ میں نے اُس پر موت کے عنوان پر بیان کیااور دُعا مانگی ۔ہرطرف رونا دھونا پڑگیا ۔سب ہکا بکا رہ گئے کہ بیان اس طرح بھی ہوا کرتا ہے کہ بندہ اپنے بس میں نہیں ہوتا چیخیں نکل جاتی ہیں۔ پھر ہمارا یہ اجتماع بڑھنا شروع ہوا،بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھا کہ عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ(محلہ سوداگران پرانی سبزی منڈی باب المدینہ کراچی )میں منتقل ہوگیا ۔ اس واقعہ کو پچیس چھبیس سال ہوگئے ، اﷲعَزَّوَجَلَّ کے کرم سے دعوتِ اسلامی دن بدن ترقی ہی کرتی چلی جارہی ہے ۔‘‘(مَدَنی مذاکرہ نمبر 170)


اِیصا لِ ثواب کی برکت

ایک مُبَلِّغ کا بیان ہے کہ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک بار دورانِ گفتگو ارشادفرمایا کہ’’ بڑے بھائی صاحب کا۱۵ مُحَرَّمُ الْحَرام ۱۳۹۶ھ کو ٹرین کے حادثہ میں انتقال ہوا اور اسی سال جب ماہ رَمَضانُ المبارَک کی پہلی پیر شریف آئی تو دوپہر کے وقت میری بڑی ہمشیرہ صاحبہ نے مجھ سے چند غیر متوقع سُوالات کئے۔ پہلا سُوال یہ تھا کہ’’ کیا تم کل قبْرِستان گئے تھے؟ ‘‘میں نے ذرا چونک کر کہا ’’جی ہاں‘‘ (میرے چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ میری ہمشیرہ کو تو صرف اتوار کی شام میرے قبْرستان جانے کا علم تھا اور ماہِ رَمَضان المبارَک میں اتوار کو نمازِ مغرب کے بعد میری گھر پر موجودگی کی وجہ سے شایدوہ یہ سمجھی ہوں گی کہ میں قبْرستان نہیں گیا)میری حیرت دُور کرتے ہوئے ہمشیرہ کہنے لگیں کہ تم مجھ سے چاہے کتنا ہی چھپاؤ مگر مرحوم بھائی جان نے مجھے خواب میں سب کچھ بتادیا ہے کہ تم کب کب قبْرِستان جاتے ہو ،اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہاں تم اسلامی بھائیوں کے ساتھ مل کرنعت خوانی بھی کرتے ہو۔ مزید کہا کہ بھائی جا ن نے مجھے خواب میں اپنی قبْر کے حالات بتاتے ہوئے کہا ہے کہـ’’جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو ایک چھوٹا سا جانور میری طرف لپکا میں نے پاؤں کو زور سے جھٹکا دے کر اسے ہٹا دیا، اس جانور کا ہٹنا تھا کہ خوفناک عذاب میری طرف بڑھنے لگا، قریب تھاکہ وہ عذاب مجھ پر مسلط ہوجاتا کہ اتنے میں بھائی الیاس کا کیا ہوا ایصالِ ثواب آپہنچا اور وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہوگیا۔ جب دوسری جانب سے عذاب بڑھنے لگا تو وہاں بھی الیاس بھائی کا ایصالِ ثواب آڑھ بن گیا۔ اسی طرح ہر طرف سے عذاب بڑھا مگر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ہر مرتبہ ایصالِ ثواب ڈھال بن گیا۔ بالآخر تمام راہیں مَسدود پاکر عذاب مجھ سے دور ہوگیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکْر ہےکہ مرنے کے بعد مجھے میرا بھائی الیاس کام آگیا۔

میرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ

انہیں خُلد میں بسانا مدنی مدینے والے

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔


والِدۂ ماجِدہ

امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی والدہ ماجدہ رَحْمَۃاللہ تعالیٰ عَلَیْہا ایک نیک ، صالحہ اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ جنہوں نے سخت ترین معاشی آزمائشوں میں بھی اپنے بچوں کی اسلامی خُطوط پر تربیتکی جس کا منہ بولتا ثُبوت خود امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی ذاتِ مقدسہ ہے ۔

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے ایک بار بتایا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ والدہ محترمہ رَحْمَۃُ اللہ تعالیٰ عَلَیْہا کا شروع ہی سے فرائض و واجبات پر عمل کرنے اور کر وانے کا اس قدر ذہن تھا کہ چھوٹی عمر ہی سے ہم بہن بھائیوں کو نمازوں کی تلقین فرمانے کے ساتھ سختی سے عمل بھی کر واتیں ، بالخُصوص نمازِ فجر کے لئے ہم سب کو لازمی اُٹھاتیں۔والدہ ماجدہ رَحْمَۃُاللہ تعالیٰ عَلَیْہا کی اس طرح تلقین و تربیت کی بَرَکت سے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری بچپن میں بھی کبھی نمازِ فجر چھوٹی ہو۔



والدۂ ماجدہ کی وفات

ابھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد مادَرِ مشفقہ نے بھی سفرِ آخرت اختیار کیا۔ ایسے اعصاب شکن حالات میں عُموماً لوگوں کے ہاتھ سے دامنِ صَبْر چھوٹ جاتا ہے اور ان کی زبان سے شکوہ وشکایت کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں ،امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنے پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں بصورتِ ا َشعار اِستِغاثہ پیش کیا، ان میں سے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔

گھٹائیں غم کی چھائیں ،دل پریشاں یا رسولَ اللہ

تمہیں ہو میرے دَرْد و دُکھ کا دَرماں یا رسولَ اللہ

میں ننھا تھا، چلا والد، جوانی میں گیا بھائی

بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں چلی ماں یا ر سولَ اللہ

نسیمِ طیبہ سے کہہ دو دلِ مضطرکو جھونکا دے

بنے شامِ الم صبحِ بہاراں یارسولَ اللہ

سفینے کے پرخچے اڑچکے ہیں زورِ طوفاں سے

سنبھالو! میں بھی ڈوبا اے میری جاں یا رسولَ اللہ

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔

صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب

صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد



والد ۂ مُشفِقَہ پررَحمت

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کچھ یوں فرماتے ہیں کہ والدۂ مشفِقَہ رَحْمَۃاللہ تعالیٰ عَلَیْہا کا شبِ جُمُعہ کومیٹھا در کے علاقے میں انتقا ل ہوا۔ موت کے وقت مجھے بہت یاد کررہی تھیں ،ہمشیرہ نے بتا یا :’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ کلِمۂ طیبہ اور اِسْتِغفار پڑھنے کے بعدزبان بند ہوئی۔بالخصوص غسل دینے کے بعد چہرہ نہایت ہی روشن ہوگیا تھا۔ جس حصۂ زمین پر روح قَبْض ہوئی اس میں کئی روز تک خوشبو آتی رہی اورخُصوصاً رات کے اس حصہ میں جس میں انتقال ہوا تھا، طرح طرح کی خوشبوؤں کی لَپٹَیں آتی رہیں۔ تیجا(یعنی سوئم) والے دن صبح کے وقت چند گلاب کے پھول لاکر رکھےتھے جو شام تک تقریباً تروتازہ رہے جومیں نے اپنے ہاتھ سے والدہ کی قبر پر چڑھائے۔ یقین جانیں ان میں ایسی عجیب بھینی بھینی خوشبو تھی کہ میں حیران رہ گیا، کبھی گلاب کے پھولوں میں ، میں نے ایسی خوشبو نہیں سُونگھی تھی نہ ابھی تک سونگھی ہے بلکہ گھنٹوں تک وہ خوشبو میرے ہاتھوں سے بھی آتی رہی۔ (رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہَا)

برستا نہیں دیکھ کر ابرِرَحمت

بدوں پر بھی بَرسا دے بَرسانے والے

آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ مزیدارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سب پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی غلامی کا صدقہ ہے ، جس پر بھی سرکار مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی میٹھی میٹھی اور مَہکی مَہکی نَظَر کرم ہوجاتی ہے ،وہ ظاہر ی و باطنی خوشبوؤں سے مَہکنے لگتا ہے ۔ ا ور پھر اس کی خوشبو سے ایک عالم مَہک اٹھتا ہے

تاجِ سر بنتے ہیں سیّاروں کے
ذرے جھڑ کر تری پَیزاروں کے
بول بالے مری سرکاروں کے
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضاؔ

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔

صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب

صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد


مرتے وقت کلمۂ طیبہ پڑھنے کی فضیلت

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلّ!امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی والدہ ماجدہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہَاپَر رَبّ عَزَّوَجَلَّ کا کتنا کرم ہے کہ ان کا انتقال کلِمۂ طَیِّبَہ اور اِسْتِغفارپڑھنے کے بعد ہوا ۔خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم !خوش قسمت ہے وہ مسلمان جس کو مرتے وَقْت کَلِمَہ نصیب ہو جائے اُس کا آخِرت میں بیڑا پا ر ہے۔ چُنانچِہ نبیِّ رَحْمت، شفیعِ امّت، مالِکِ جنّت، محبوبِ ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنّت نشان ہے، جس کا آخِری کلام لَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ ہو وہ داخِلِ جنّت ہو گا۔

(ابوداوٗد شریف، رقم الحدیث ۳۱۱۶، ج ۳ ص ۱۳۲، داراحیاء التراث العربی )

لب پر مرتے دَم کلمہ
فضل و کرم جس پر بھی ہُوا
لَآ اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہ
جاری ہوا جنّت میں گیا

صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب

صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد



میں بہت خوش ہوں

بروز منگل۱۲ربیع النور شریف ۱۴۲۷ ھ (11-04-2006)

میں ہونے والے سانحہ نشتر پارک کے شہید حاجی محمد حنیف بلو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ ابتِداء ایک ماڈرن نوجوان تھے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ قبلہ شیخِ طریقت، امیرِ اَہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی انفرادی کوشش کی بَرَکت سے مذہبی ماحول اپنایا، نمازی بنے اور چہرے پر سنّت کے مطابق داڑھی سجالی ۔جب۱۷صفر المظفر ۱۳۹۸ ھ شبِ جمعہ رات تقریباً سوا دس بجے ا میرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی والدہ محترمہ(جو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکی تھی) فوت ہوئیں۔کچھ دیر کے بعد کچھ اسلامی بھائی تعزیت کے لئے حاضر ہوئے ان میں شہیدِ جشنِ ولادت حاجی محمد حنیف بلو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ بھی شامل تھے۔اُن کا بیان ہے کہ والدہ کی میّت گھر میں رکھی تھی،امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ صدمے سے چُو رچُور بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں اس طرح استغاثہ پیش کر رہے تھے:

اے شافعِ امم شہ ذی جاہ لے خبر

اللہ لے خبر مِری للہ لے خبر

(حدائقِ بخشش)

والدہ مر حومہ کی تدفین میوہ شاہ قبرستان (بکرا پیڑی،باب المدینہ کراچی) میں ہوئی۔ دوسرے دن میں نے( یعنی حاجی حنیف بِلو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ نے) امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو بتایا کہ جس وقت آپ والدہ کی میت کے قریب رو روکر دُعا واستغاثہ میں مشغول تھے ۔ آپ کی والدہ مجھے مخاطب کر کے میمنی زبان میں فرمانے لگیں : (خلاصہ) ’’الیاس سے کہہ دو رنجیدہ نہ ہو میں بہت خوش ہوں ‘‘۔ یہ سُن کر میں سمجھا کہ شایدمجھے وَہم ہوا ہے،میّت کیسے بول سکتی ہے؟لہٰذامیں نے آپ سے تذکرہ نہیں کیا ۔ تدفین والے دن میں اپنے کمرے میں سونے کے لئے جب لیٹا اور ابھی میں جاگ ہی رہا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے آپ کی والدہ مرحومہ ماجدہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہَا آکر کھڑی ہو گئیں۔اور میمنی زبان میں فرمانے لگیں :(مفہوم)تم نے میرے بیٹے الیاس کو ابھی تک پیغام کیوں نہیں دیا کہ’’ وہ رنجیدہ نہ ہو میں بہت خوش ہوں ‘‘۔یہ سُن کر میں تعجُّب میں پڑا اور ایک حافظ صاحب کو میں نے یہ باتیں بتا کر مسئلہ معلوم کیا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے ،کیا واقعی مُر دے کلام کرتے اوراس طرح کے تصرُّفات کے اختیارات رکھتے ہیں ؟اس پر حافظ صاحب نے مجھے دلائل دے کر سمجھا یا کہ اس طر ح کے واقعات سے ہماری کتابیں بھری پڑی ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل و کرم سے اپنے پسندیدہ بندوں کو بہت سارےاختیارات دیتا ہے۔لہٰذا میں مطمئن ہوا تب آپ کو یہ ساری باتیں بتائی ہیں۔

حاجی حنیف بِلو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِ نے بعد میں یہ بھی بتایا کہ میں امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کو ان کی والدہ کا پیغام سنا کر جوں ہی پلٹا فوراً ان کی والدہ مرحومہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہَا کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے اُبھرا ،دو الفاظ میں نے سنے، اورغائب ہو گیا۔وہ دو الفاظ یہ تھے:’’شکریہ مہربانی۔‘‘

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی امیرِاہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری بے حسا ب مغفِرت ہو۔

(ابتدائی حالات،ص۱۱)